• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی محاورے کے مطابق’’ڈنڈے اور گاجر کا استعمال؟‘‘

پہلے ایک لطیفہ سن لیں کیونکہ یہ حسب حال ہے پھر اصل موضوع کی طرف آئوں گا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب روس متحد تھا، سپر پاور تھا، کمیونزم روس پر پوری طرح مسلط تھا، نظام حکومت آمریت کی بدترین مثال تھا اور لکھنے ، بولنے حتیٰ کہ سوچنے پر بھی سخت پہرے اور کڑی پا بندیاں تھیں۔ روسی خفیہ ایجنسیKGBہر شہری پر نگاہ رکھتی تھی۔ ایک قہوے خانے میں چند دوست بیٹھے حالات حاضرہ پر راز و نیاز کررہے تھے کہ ان میں سے ایک نے جذباتی ہو کر کہہ دیا خروشیف بیوقوف ہیں۔ خفیہ ایجنسی کے اہلکار نے یہ بات سن لی اور نصف شب ا س شخص کو گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ مقدمہ چلا، جرم ثابت ہوگیا تو جج نے فیصلے کااعلان کرتے ہوئے کہا تمہیں بیس سال کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دس سال کی سزا روسی حکمران کو گالی دینے کے جرم میں اور دس سال کی سزا ایک ریاستی راز(Secret)فاش کرنے کے جرم میں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں ہے کہ ڈان کے سرل المیڈا کی ا سٹوری پر وفاقی حکومت بھی سیخ پا ہے اور فوج نے بھی اسے قومی سلامتی پر زد قرار دے کر انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ساری کارروائی کے پس پردہ سازش کارفرماتھی، اعلیٰ ترین اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے اسٹوری فیڈ یا پلانٹ کی گئی جو بہرحال افسوسناک ہے۔ ہندوستان نے اس ’’لیک‘‘(Leak)کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ہندوستان کو پاکستان کی مقتدر قوتوں کے حوالے سے دہشت گردوں کی سرپرستی کا ثبوت ہاتھ آگیا، چنانچہ اب بھارت پر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کا الزام لگا کر اس خبر کے متعلقہ حصے کو ثبوت کے طور پر پیش کرے گا جبکہ اس ہنگامے اور شور میں پاکستانی وضاحتوں کی آواز دب کر رہ جائے گی۔ صحافی برادری کا موقف ہے کہ خبر کا حصول صحافی کا پیشہ ہے اور جب صحافی اپنے موقف پر قائم رہے اور اسے اپنی صداقت پر یقین ہو تو پھر خبر دینا اس کا حق ہے۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ ایسی خبروں سے قومی سلامتی پر آنچ نہیں آتی البتہ یہ انکوائری کریں کہ خبر کہاں سے لیک ہوئی۔ اس حوالے سے اشارے اتنی بلند جگہوں کی جانب کئے جارہے ہیں کہ انکوائری کا ڈول ڈالنا اسے دبانے کی حکمت عملی ٹھہرے گا۔ میری صحافیوں، دانشوروں اور حکومتی حلقوں سے درخواست ہے کہ چومسکی کی کتاب (Manufacturing Consent) پڑھیں جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مکمل آزادی اظہار کے باوجود امریکہ میں میڈیا اور حکومت کے درمیان ا یک غیر تحریری سمجھوتہ موجود ہے کہ میڈیا ایسی خبریں یا خصوصی اطلاعات نہیں چھاپے گا جس سے ملکی سلامتی اور امریکہ کے بین الاقوامی مفادات پر زد پڑتی ہو۔اب آتے ہیں ا صل موضوع کی طرف ......... ہمارے دوست سرل المیڈا کے لئے پریشان ہیں کہ کہیں اسے کسی انکوائری یا سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یوں یہ رسم نہ چل نکلے۔ سرل المیڈا خوش قسمت ہے کہ اسے کل تک پاکستان میں چند ہزار انگریزی خواں جانتے تھے جبکہ اب اسے کروڑوں پاکستانی اور غیر ملکی جانتے ہیں۔ اسے راتوں رات جو شہرت نصیب ہوئی ہے وہ مقدر کی دین ہے ورنہ لوگ اربوں روپے لگا کر بھی اتنے مشہور نہیں ہوتے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا کی ا سکرینوں پر ان کی بار بار تصویر اور جھلک دکھائی جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ خود سرل المیڈا اور ان کے بہی خواہ پریشان ہوں یا دبائو کا شکار ہوں اس لئے میں انہیں تاریخ کی روشنی میں یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ پریشان نہ ہوں بلکہ اسے اپنے روشن مستقبل کی ضمانت سمجھیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دو برس کے بعد آپ اقتدار کے سنگھاسن پر تشریف فرما ہوں گے اور حکمران آپ سے پوچھ رہے ہوں گے ’’بتا تیری رضا کیا ہے؟مانگ کیا مانگتا ہے؟‘‘ آپ وزارت سفارت یا کسی چیئرمینی کی خواہش کریں گے تو وہ آپ پر نچھاور کردی جائے گی۔اب آپ پوچھیں گے کہ کیا آپ کے پاس غائب کا علم ہے یا آپ ستارہ شناس جوتشی ہیں؟ نہیں برادران میں تو ان علوم کے حوالے سے جاہل ہوں لیکن مجھے تاریخ کی شد بد ہے، تھوڑی سی تاریخ دیکھی اور تھوڑی سی پڑھی ہے چنانچہ میں بعض پیشن گوئیاں تاریخ کی روشنی میں کرتا ہوں نہ کہ آسٹریالوجی یا آسٹرانومی کے حوالے سے.......میں سرل المیڈا کے روشن اور مقتدر مستقبل کی بات کیوں کررہا ہوں اس حوالے سے صرف تین مثالیں پیش خدمت ہیں ورنہ میرے پاس’’مصالحے‘‘ کی کمی نہیں۔
اول مثال میرے دوست تجزیہ کار کی ہے جن پر ضیاءدور میں مقدمات بھی بنے۔ 1980کی دہائی میں وہ روحانی، قلبی اور ذہنی طور پر پی پی پی سے وابستہ تھے اور میاں نواز شریف کے شدید مخالف تھے۔ آج کل ان کا پرندہ وزیر اعظم ہائوس میں رہتا ہے۔ اس دور میں ا ن کا پرندہ وزیر اعلیٰ ہائوس اور پھر جب میاں صاحب وزیر اعظم بنے تو وہ وہاں منتقل ہوگیا تھا۔ وہ میاں صاحب پر کڑی تنقید کے ساتھ ساتھ اپنے پرندے کے ذریعے حکومتی سمریاں اور وزیر اعلیٰ ہائوس کا ریکارڈ بھی حاصل کرلیتے تھے اور اسے اپنے میگزین میں چھاپ کر حکمرانوں کو ننگا کرتے تھے۔ کالم کی تنگ دامنی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
بس یوں سمجھ لیجئے کہ دونوں طرف ناپسندیدگی کی آگ برابر برابر لگی ہوئی تھی۔ اقتدار کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفادات اور ضروریات کے لئے محسنوں، مخلص دوستوں اور وفاداروں کو بھی قربان کردیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر مخالفین کو بھی سینے سے لگالیتا ہے۔ کامیاب حکمران ہمیشہ انگریزی محاورے کے مطابق ایک ہاتھ میں گاجر (Carrot)اور دوسرے میں ڈنڈا(Stick)رکھتا ہے۔ کبھی کبھی سر اٹھانے والوں کو جھکانا پڑتا ہے کیونکہ یہ اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ میاں صاحب کے دوسرے دور حکومت میں ایک رات اس تجزیہ کار کو فیملی کے درمیان سے اٹھالیا گیا، شاید بوری میں بند کرکے تواضع بھی کی گئی جس سے مجھے نہایت دکھ ہوا، پھر معافی تلافی ہوگئی۔ ڈنڈے کے استعمال کے بعد کامیاب حکمران گاجر کھلاتا ہے، چنانچہ 2013ءکے انتخابات میں میاں صاحب نے میرے دوست کو گاجروں کا ٹوکرا پیش کیا، بہت سے عہدے دیئے اور شاید کسی وقت کسی بڑے ملک میں سفیر بن کر چلے جائیں۔ اس کا انحصار ان کی خواہش پر ہے۔دوسری مثال ایک خاتون کی ہے جس پر میاں صاحب اس قدر ناراض تھے کہ بغاوت کے مقدمے کی خبر چھپ گئی تھی۔ اس خبر کا پس منظر صرف ملیحہ لودھی کی تنقید ہی نہیں تھی بلکہ ان کے بعض ایسے رابطے بھی تھے جو حکمرانوں کے خیال میں بغاوت کے زمرے میں آتے تھے۔ جن دنوں جنرل آصف نواز جنجوعہ، آرمی چیف میاں صاحب کے خلاف ہو کر ٹیک اوور کا ارادہ کرچکے تھے ان دنوں میرے ممدوح ان کے قریب تھے۔ جنرل جنجوعہ کے انتقال کے بعد ان کے قریبی ساتھی نے مجھے بتایا کہ ٹیک اوور کی تاریخ بھی طے ہوچکی تھی لیکن خدائی مداخلت نے میاں صاحبان کو بچالیا۔ میاں صاحب بلاشبہ مقدر کے سکندر ہیں، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ان کے ملاقاتیوں کی فہرست میں نمایاں ہوتی تھیں کیونکہ مشرف کو میاں صاحب کے مخالفین کی ضرورت تھی چنانچہ مشرف نے اس خاتون کو سفیر بنا کر بھجوادیا کیونکہ یہی ان کی خواہش تھی۔ ڈنڈے کے بعد گاجر کا استعمال کرتے ہوئے میاں صاحب نے تیسری بار وزیر اعظم بن کر اس خاتون صحافی کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بر وزن سفیر بنادیا۔ اس لئے مجھےیقین ہے کہ سرل المیڈا کا مستقبل روشن ہے۔ وہ حال کی بجائے مستقبل پر نظر رکھے اور کوئی اچھا سا عہدہ ذہن میں رکھے۔ ماضی کی مانند اور تاریخ دہراتے ہوئے میاں صاحب اگلے دورحکومت میں اسے خوب نوازیں گے۔ میں نے دیگ میں سے صرف چند ایک دانے نکالے ہیں ورنہ........!!


.
تازہ ترین