• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (طارق بٹ)وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے اسلام آباد جام کرنے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے 4 سخت آپشنز پر غور کررہی ہے۔ کابینہ کے سینئر رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا کہ عمران خان پہلے دن ہی لاشوں کا حصول چاہتے ہیں، مگر ہم ان کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خونریزی کے لیے بے تاب ہیں اور انہیں 2014 کے تجربے سے معلوم ہے کہ طویل ہونے پر احتجاج بے اثر ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ پہلے دن ہی ہنگامہ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ پھر ان کی حرکتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جلدی میں ہیں جیسے انہیں کوئی ڈیڈلائن دی گئی ہو۔ اسی لیے پی ٹی آئی نے اسلام آباد بندش کو آر یا پار قرار دیا ہے۔ ایک دوسرے وزیر نے بتایا کہ حکومتی حلقوں میں احتجاج سے ایک روز قبل عمران کی گرفتاری، بنی گالا میں نظر بندی یا کسی اور جگہ منتقلی کا آپشن زیر غور ہے۔ کیونکہ 2014 کے پی ٹی وی حملہ کیس میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان اور طاہر القادری کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں اور پولیس کو عملدرآمد کا حکم دیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کے پاس گرفتاری کا جواز ہے۔ جج سید کوثر عباس زیدی نے دونوں رہنماؤں سمیت 68 ملزمان کی عدم گرفتاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 17نومبر تک پیش کرنے کا حکم دیا۔ تاہم وزیر موصوف نے خدشہ ظاہر کیا کہ عمران کی گرفتاری سے ان کے لیے ہمدردیاں بڑھیں گی اور پی ٹی آئی کارکنوں کا سخت ردعمل آسکتا ہے ، مگر اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ عمران کی گرفتاری سے پورا احتجاج چوپٹ اور ختم بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ان کے کارکن میں درکار برداشت اور مضبوطی نہیں۔ وزیر نے کہا کہ یہ فیصلہ یقینا مجبوری میں ہی کیا جائے گا، کیونکہ ہم نے پہلے کبھی سیاست دان یا کارکن کسی کے ساتھ ایسا رویہ نہیں اپنایا۔ ہمارے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں بنا۔ ایک اور وزیر نے بتایا کہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ عمران کی بجائے دوسرے درجے کی قیادت کو بند کردیا جائے جو کارکن لانے کی ذمہ دار ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کے پاس ساری معلومات ہیں۔ سرکاری ذرائع نے ان اقدامات کے مضمرات اور ردعمل کا بھی اعتراف کیا۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ 2014 کی طرح پی ٹی آئی کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ خود ہی عوام کے سامنے اپنا تاثر خراب کرلیں۔ مگر اس طرح حکومت کے عدم وجود کا تاثر جائے گا اور رٹ مذاق بن جائے گی، نیز احتجاجی مظاہرین اہم مقامات اور سرکاری دفاتر پر حملہ کردیں گے، جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ حکومت عوام کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ چوتھا آپشن یہ ہے کہ کچھ نرمی کچھ سختی کی جائے۔ عمران یا کسی رہنما کو گرفتار نہ کیا جائے، لیکن احتجاجی مظاہرین نے شہر بند کیا اور تشدد پر اترے تو سختی سے نمٹا جائے۔ حکومت جو آپشن بھی اختیار کرے اسلام آباد میں کنٹینر دوبارہ نظر آنے والے ہیں اور شہر کے باسیوں کو ایک بار پھر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
تازہ ترین