• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ سالانہ 36ارب پاکستانیوں کی جیب سے نکال رہا ہے

اسلام آباد ( حنیف خالد) غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ کے ذریعےکم و بیش36 ارب روپے سالانہ کمائے جارہے ہیں جس میں سے 18 ارب روپے سے زائد غیر قانونی طریقے سے انڈین ڈی ٹی ایچ کمپنی حاصل کررہی ہے۔ باقی کا کالا دھن انڈین غیر قانونی ڈی ٹی ایچ کے طاقتور پاکستانی پارٹنرز کی جیبوں میں جارہا ہے جس پر نہ ہی کوئی ٹیکس ایف بی آر کو دیاگیا اور نہ ہی اس نے پاکستانی معیشت کوسہارا دیا۔ اتنی بڑی منی لانڈرنگ کے سسٹم کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے اور کالا دھن مافیا کو قانون کے شکنجے میں کسنے کیلئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ ہفتے کے آغاز میں اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر/ ڈپٹی گورنر چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ، چیئرمین پیمرا ابصار عالم وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیل فون انڈسٹری، فنانشنل ٹرانزکشن ایکسپرٹس مدعو کئے گئے ہیں۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم آئندہ 24 گھنٹوں میں وفاقی وزیر خزانہ ریونیو اقتصادی امورشماریات و نجکاری سینیٹر محمد اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم سے مشاورت کے ساتھ بنکنگ سیکٹر کے ذریعے غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ کے جمع ہونیوالے پیسے کی انڈین ڈی ٹی ایچ کمپنی کو ترسیل روکنے کیلئے فول پروف حکمت عملی تیار کرینگے۔ اس نئی اور جدید کمپیوٹرائزڈ الیکٹرانک سٹرٹیجی کےتحت پہلے مرحلے میں پاکستان سے غیر قانونی اربوں روپے کا زر مبادلہ غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ کو نہیں جاسکے گا۔ دوسرے مرحلے میں وہ لوگ جو اس غیر قانونی دھندے کے بااثر سرغنہ ہیں ان کیخلاف تحقیقات شروع کی جائے گی تاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ انہوں نے ماضی کے کئی سالوں سے کتنا کالا دھن کمایا اور انکم ٹیکس ریٹرن میں سالانہ آمدنی کتنی شو کرتے رہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میںپہلی بار ہے کہ نہ صرف غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ کیخلاف سخت ایکشن شروع کیا گیا بلکہ اس کو مستقل طور پر ختم کرنے کیلئے مسلسل فالو اپ کیا جائیگا تاکہ یہ کالا دھندہ دوبارہ بحال نہ ہوسکے۔ غیر قانونی انڈین ڈی ٹی ایچ پر دکھائے جانے والے انڈین ڈراموں کی پاکستانی چینلوں پر بندش نہ صرف پاکستان کا اپنا ڈی ٹی ایچ پروجیکٹ کامیاب ہوگا بلکہ پاکستان کی ٹی وی پروڈکشن انڈسٹری اور آرٹسٹوں کو بیش بہا فائدہ پہنچنا شروع ہوگا۔ اب یہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماضی کی طرح بھارتی ڈرامہ انڈسٹری سے بہتر ڈرامے تیار کرے اور انڈین ڈرامہ انڈسٹری پر اس طرح چھا جائے جس طرح1970 سے 2000 تک پاکستانی ڈرامے انڈین ناظرین کے دل و دماغ میں رچ بس جاتے تھے۔
تازہ ترین