• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امیگرنٹس کیلئے ایک نیا قانون!! امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں موجودہ برسر اقتدار کنزرویٹو پارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد تارکین یا امیگرنٹس کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے تو وہ تمام سکیمیں ختم کردیں جن سے امیگرنٹس کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچتا تھا۔ اس کے بعد وہ تمام قوانین بھی ختم کر ڈالے جن سے تارکین وطن کو استفادہ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ امیگریشن کی تقریباً تمام درخواستوں میں اپیل کے حق کو بھی ختم کردیا گیا اور عدالتی اختیارات اس ضمن میں انتظامیہ کو دے دیے گئے۔ اس کے علاوہ امیگریشن کی تمام درخواستوں پر بھاری فیسیں عائد کردیں۔ اسی پر یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ حیلے بہانوں سے امیگریشن کی درخواستیں تسلسل سے مسترد کی جانے لگیں۔ گزشتہ سال تک حکومت نے صرف امیگریشن قانون کو سخت کرنے کے لیے امیگریشن قوانین میں پینتالیس ہزار سے زائد ترامیم کردیں جن سے کہ سارے کے سارے امیگریشن نظام اور قانون کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ اب اس سلسلہ میں آخری مرحلہ پر حکومت امیگرنٹس کے معاملات پر سے بنیادی انسانی حقوق کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہے۔ چونکہ امیگرنٹس کی طرف سے اس جانب نہ تو کوئی دلچسپی لی جارہی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں بنیادی، انسانی حقوق کو تارکین وطن کے لیے ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ گزشتہ ہفتے ہی حکومت نے اپنے منصوبہ کے تحت امیگریشن کی اپیلوں کی فیسیوں میں پانچ سو سے زائد گنا کا اضافہ کردیا ہے۔ اب حکومت نے باقی ماندہ امیگرنٹس کی درخواست مسترد کرنے کے لیے ایک اور قانون بنا دیا ہے جس کے تحت LITIGATION DEBT کے نام سے ایک اصطلاح وضع کی گئی ہے اور اگر یوں کسی شخص کے ذمہ ہوم آفس کی مد میں کوئی واجب الادا رقم ہوگی تو اس بنیاد پر درخواست دہندہ کی امیگریشن کی کوئی بھی درخواست مسترد کی جاسکے گی۔ جب کسی تارک وطن کی کوئی درخواست مسترد ہوجاتی ہے تو صرف چند ایک مخصوص درخواستوں میں وہ اس معاملہ کو عدالت میں لے جاسکتا ہے اور اگر عدالت سے اس کی درخواست یا اپیل مسترد ہوجاتی ہے تو اسے ہوم آفس کا خرچہ ادا کرنا پڑے گا جس کو کہ LITIGATION DEBT کا نام دیا گیا ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی تارک وطن یا امیگرنٹ یہ رقم ہوم آفس کو ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے تو صرف اسی بنیاد پر اس کے ویزا یا اس کے ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد کی جاسکے گی۔ واضح رہے کہ ہوم آفس والے ان لوگوں کو بھی ہوم آفس کی بھاری فیسیں ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا بھر کے تمام مہذب ممالک میں اگر کسی کے پاس کام نہ ہو یا کام کرنے کی اجازت نہ ہو یا پھر رقم نہ ہو تو اسے کسی قسم کا قرضہ ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر برطانیہ سمیت یورپ بھر کے تمام ممالک میں قانون ہے کہ اگر مقروض، قرضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اسے قرضہ ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی عدالت اس کے خلاف فیصلہ دے بھی دے تو اس کے مالی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے ایک مخصوص رقم اقساط کی صورت میں ادا کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ لیکن اب اس نئے قانون کے تحت اگر کوئی شخص متعلقہ قانونی شرائط پوری بھی کردیتا ہے تو پھر بھی صرف اس بنیاد پر اس کی درخواست مسترد کی جائے گی کہ اس کے LITIGATION DEBT کی مد میں ہوم آفس کو رقم ادا نہیں کی ہے۔ اس ضمن میں قانون کا اطلاق تو4اپریل سے ہوگیا تھا، لیکن ہوم آفس نے اپنے سٹاف کو17اکتوبر2016ء کو ہدایت نامہ جاری کردیا ہے کہ وہ اب اس بنیاد پر درخواستیں مسترد کردیا کریں۔




.
تازہ ترین