• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت میں ملک کی ٹوٹ پھوٹ روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن

برطانیہ میں برکسٹ ریفرنڈم میں یورپین یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے حق میں ووٹ کے بعد برطانیہ میں بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ ایک طرف پونڈ کی قدر روزانہ کے حساب سے گرتی جارہی ہے یہی پونڈ کچھ عرصہ قبل قدر میں امریکی ڈالر سے تقریباً ڈبل تھا۔ اب گرتے گرتے تقریباً برابر ہوگیا ہے جس سے ای یو میں برطانیہ کا حصہ5بلین پونڈ کی بجائے7بلین ہوجائے گا کیونکہ یہ تعین پونڈ کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق طے ہوتا ہے۔ ادھر حکومت اور سٹیٹ بینک نے مہنگائی بڑھنے کا عندیہ بھی دے دیا ہےخاص طور پر اشیائے صرف کے صارفین کو چوکنا کردیا گیا ہے۔ سٹوروں اور دکانوں پر کھانے، پینے کی اشیا کی قیمتیں اوپر جانا شروع ہوگئی ہیں۔ ادھر لیبر مارکیٹ میں افرادی قوت کی دستیابی میں شدید قلت واقع ہوتی جارہی ہے کیونکہ یورپی ورک فورس کے لیے برطانیہ میں نئے قوانین نے یا تو انہیں واپس کرنے پر مجبور کردیا ہے یا کام کی اجازت میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال تو پیدا کرنے والے ذمہ داران آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ایسے برٹش شہری جوکہ برطانوی کے ساتھ ساتھ یورپی رہنا اور کہلانا پسند کرتے ہیں وہ برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی پر عملدرآمد سے پہلے برطانیہ چھوڑنے اور کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کا کہہ رہے ہیں یہ تو ایک سوشل سطح پر عوامی اضطراب ہے۔ یورپین یونین میں رہنے کے تجربے کے بعد جو بہت سارے لوگ اب خود کو انٹر نیشنل سمجھنے لگے ہیں۔ یعنی وہ مخصوص خطے کی بجائے پورے یورپ کو اپنی سرزمین سمجھنے لگے ہیں یہ بڑی مثبت سوچ ہے جو اب ای یو سے باہر نکلنے کے بعد بری طرح متاثر ہوگی۔ یہ احساس برکسٹ ریفرنڈم کی دین ہے ورنہ اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں ممکن ہو سرحدوں کی پابندیوں کو نرم تر کیا جائے۔ اس بڑے نقصان کے ساتھ اب برطانیہ میں ایک اور اس سے بھی گہرا بحران برپا ہونے کو ہے۔ یہ اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی یا آزادی کا مسئلہ ہے۔ 2014ء میںا سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں بہت کم اکثریت سے سکاٹ لینڈ یوکے سے علیحدہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ ابھی حالیہ برکسٹ ریفرنڈم میںا سکاٹ لینڈ نے62فیصد ووٹ کے ساتھ یورپRemainکا ووٹ دیا تھا۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کی نکولا سٹرجن نے گزشتہ ہفتے ایس این پی کی سالانہ پارٹی کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ برٹس حکومت نے2014ء میں سکاٹش ریفرنڈم کے دوران ان سے کیے گئے وعدوں سے انحراف کیا ہے۔ اس لیے اب جونہی برکسٹ کا عمل پورا ہوگا ہم آزادی کے ریفرنڈم کی طرف چلے جائیں گے کیونکہ ا سکاٹ لینڈ کا مستقبل بالآخر ایک آزاد یورپی رکن کے طور پر ہی مضبوط ہوگا۔ اب جبکہ برطانیہ یورپ سے نکل جائے گا۔ ایسی صورت میں آزاد اسکاٹ لینڈ کی یورپی یونین کی رکنیت میں کوئی چیز آڑے نہیں آئے گی۔ نکولا سٹرجن نے ٹوری حکومت کو اپنی کانفرنس میں خطاب کے دوران آڑھے ہاتھوں لیا اور تھریسامے کی یورپ سے دور رہنے کی پالیسی کو سخت تنقید کا نانہ بنایا۔ یورپی ورکرز کو جنہیں ویسٹ منسٹر کی جانب سے برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے کے لیے اس وقت شدید مشکلات درپیش ہیں انہیں فراخدلانہ دعوت دی ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ میں آئیں اور اپنی روزگار اور بہتر بزنس کے مواقع بنائیں۔ نکولاسٹرجن نے کہا کہ وہ آئندہ برس مئی تک پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے برکسٹ بل کی نہ صرف خود (SNP) مخالفت کریں گی بلکہ لیبر پارٹی، لبرل ڈیمو کریٹ اور لبرل ٹوریوں کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کریں گی۔ وزیراعظم تھریسامے کے پاس ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ برطانیہ کو سنگل مارکیٹ سے دور کرے۔ اب یہ بحران اس لیے بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ میں برطانیہ کی کریڈٹ ریٹنگ گرتی جارہی ہے اور یہاں سے کئی بڑے بزنس اور سرمایہ نقل مکانی کرکے یورپ اور چین کا رخ کرنے لگا ہے اس وجہ سے آنے والے دنوں میں یہاں کی ورکنگ کلاس شدید مشکلات دیکھ رہی ہے۔ ٹوری قیادت سے لوگوں کا تیزی سے اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ پراپرٹی مارکیٹ جو گزشتہ پندرہ سال سے اوپر کی جانب تھی اب گرنا شروع ہوگئی ہے۔ نفسیاتی طور پر بھی برکسٹ ریفرنڈم اور نتائج کو اب لوگ ٹوری حکومت کا گمراہ کن اقدام سمجھ رہے ہیں۔ اب جونہی آئندہ برس پارلیمنٹ میں آرٹیکل50کے نفاذ کا بل پیش ہوگا تو اس کی ناکامی کی صورت میں آئینی بحران شدت اختیار کرجائے گا۔ کیونکہLisbonمعاہدے کے تحت2سال مکمل ہونے پر برطانیہ کی ای یو سے رکنیت خود بخود ختم سمجھی جائے گی اور صرف ایک ہی نقطہ اسے روک سکے گا کہ اگر کوئی پارٹی یورپی رکنیت قائم رکھنے کے نقطے پر دو تہائی اکثریت کے ساتھ الیکشن جیتے اور ریفرنڈم کو ریورس کردے۔ اب یہاں ہمارے ایشیائی اور پاکستانی لوگوں کے لیے خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا بیرون ممالک میں مشاہدہ کرنے، جائزہ لینے اور سیکھنے کا وقت ہے کہ کس طرح سے جمہوری عمل کے ذریعے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے یا بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یورپی یونین کو چھوڑنا جاتا ہے تو معاہدہ ٹوٹتا ہے، لیکن ا سکاٹ لینڈ کا علیحدہ ہونا ہوا تو ملک ٹوٹنا ہے۔ لیکن یہاں نہ تو کسی ریاستی یا غیر ریاستی ایکٹر نے اسلحہ اٹھایا ہے، نہ کوئی گرفتاریاں ہورہی ہیں نہ ہی کسی کو ملک دشمنی یا غداری کے الزامات کا سامنا ہے نہ ہی حکومت کی مخالفت کرنے والوں کی کانفرنس کو الٹانے کے لیے حکومت کسی ایجنسی کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ کوئی کسی پر کیچڑ نہیں اچھال رہا ذاتیات پر حملے نہیں کررہا۔ جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ جمہوریت یہاں لوگوں کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جرمی کوربن کو پارلیمنٹ کے اندر بلیئرائٹ ممبران کی جانب سے ہی مخالفت کا سامنا ہے۔ جبکہ اپنی ہی پارٹی کا یہ جلسہ جرمی کو ہر حالت میں ناکام کرنا چاہتا ہے جبکہ جرمی کی قیادت میں پارٹی تیزی سے مضبوط اور توانا ہورہی ہے اور برکسٹ پر کنزرویٹو کی حکمت عملی نے لیبر پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا ہے اور لوگ لیبر پارٹی کو ہی آئندہ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ برکسٹ کی صورت میں بھی لیبر پارٹی یورپ کے ساتھ بہتر شرائط پر ڈیل کرسکتی ہے۔ نکولا سٹرجن نے تو ویسٹ منسٹر میں آئندہ کم از کم20سال لیبر پارٹی کی حکومت ہی کی پیش گوئی کی ہےبہرحال ہم جلد برطانیہ میں بہتر حالت کی توقع رکھتے ہیں۔




.
تازہ ترین