• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے 9 ٹیکس ٹھکانوں میں سے پاکستان کا صرف ماریشس کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ

اسلام آباد(مہتاب حیدر)پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کی تفصیلات کے لیے ایف بی آرنے کوششیں تیزکردی ہیں۔تاہم،دنیا کے 9 ٹیکس ٹھکانوں میں سے پاکستان کا صرف ماریشس کے ساتھ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔تفصیلات کے مطابق،پاکستانی حکام کوشش کررہے ہیں کہ دنیا کے 9ٹیکس ٹھکانوں میںقائم270 آف شور کمپنیوں کی تفصیلات حاسل کی جائیں، جہاں 444 افراد نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے نام پاناما لیکس کے ذریعے سامنے آچکے ہیں۔ایف بی آر ٹیکس حکام اس ضمن میں تحقیقات کررہے ہیں وہ بھی ایسے موقع پر جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اور پی ٹی آئی نے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کروانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔تاہم، دی نیوز کو ملنے والے ایف بی آر کے سرکاری دستاویزات کے مطابق، دنیا کے معلوم 9 ٹیکس ٹھکانوں میں سے ایف بی آر نے صرف ماریشس کے ساتھ دہرے ٹیکس سے بچنے کا معاہدہ کیا ہے، جب کہ بقیہ 8 ٹیکس ٹھکانوں کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ان 9 ٹیکس ٹھکانوں میں پاکستانی شہریوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس کی تفصیلات پاناما لیکس اور باہا مالیکس میں سامنے آئی ہیں ۔ان ممالک میں پاناما، باہاماس، برطانوی ورجن آئی لینڈ ، سیشلز، سمووا، ماریشس، نائو، جرسی اور انگویلا  شامل ہیں۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے حال ہی میں فیصلہ کیا ہے کہ  ایف بی آر، دفتر خارجہ کے ذریعے ان تمام ٹیکس ٹھکانوں سے رابطہ کرے اور ان سے مطلوبہ معلومات کے حصول کی درخواست کرے۔ایف بی آر کی تحقیقات کے مطابق، پانامالیکس کے ذریعے سامنے آنے والےٹیکس ٹھکانوں میںکل 270 کمپنیوں کے نام ہیں، جس کی ملکیت 444 پاکستانی شہریوں کے پاس ہے۔برطانوی ورجن آئی لینڈ میں 168 کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں، جس کی ملکیت 271 پاکستانیوں کے پاس ہے، بہاماس کی 12 کمپنیاں25 پاکستانیوں کی ملکیت میں ہے، پاناما کی 41 کمپنیاں84 پاکستانیوں کی ملکیت میں ہے، سیشلز کی 36 کمپنیاں44 پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، نائیو کی 7 کمپنیاں10 پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، سمووا کی 2 کمپنیاں4 پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، ماریشس کی 1 کمپنی3 پاکستانیوں کی ملکیت ہے، جرسی کی 1 کمپنی، 1پاکستانی کی ملکیت ہے اور انگویلا کی 2 کمپنیاں، 2 پاکستانیوں کی ملکیت میں ہیں۔پانامالیکس میں سامنے آنے والے ٹیکس ٹھکانے میں یہ بات سامنے آئی کہ انگویلا کی برطانوی سمندر پارعلاقہ کی یہ کمپنی کیریبین میں واقع ہے۔جب کہ برطانوی ورجن آئی لینڈ کا ٹیکس ٹھکانے کا اصل ملک برطانوی سمندر پار علاقہ تھا، جب کہ مقامی کیریبین ہے۔باہاماس کے 3 ٹیکس ٹھکانے باہاماس، پاناما اور سیشلز کی آزاد کمپنیاں بالترتیب بحراوقیانوس، جنوبی امریکا اور بحر ہند میں قائم کی گئیں۔نائیو کے ٹیکس ٹھکانے میں قائم کمپنیاں، نیوزی لینڈ کے ساتھ آزاد ایسوسی ایشن میں قائم کی گئی تھی اور اس کا مقام جنوبی بحرالکاہل تھا۔سمووا اور ماریشس کی آزاد کمپنیاںجزیرہ اوقیانوس اور  بحر ہند کے مقام پر قائم کی گئیں۔جرسی کا ٹیکس ٹھکانے کا اصل ملک تاج برطانیہ پر انحصار کرنے والی ریاست ہے اور اس کا مقام انگریزی چینل ہے۔جب اس نمائندے نے ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے رابطہ کیا تو  ان کا کہنا تھا کہ او ای سی ڈی کا فورم پوری کوشش کررہا ہےکہ معلومات کا تبادلہ ممکن ہو تاکہ ممکنہ ٹیکس چورو ں کی تفصیلات حاصل کی جاسکیں۔اہم پیشرفت کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ سوئس حکام نے او ای سی ڈی فورم کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے قوانین بنانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے، جس کا اطلاق اگلے سال سے ہوگا۔اس کے ذریعے بہت سے ممالک کو مدد ملے گی، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔اس کے ذریعےسوئس اکائونٹس میں جمع کی گئی با اثر شخصیات کی غیر قانونی رقوم کی تفصیلات حاسل کی جاسکیں گی۔ 
تازہ ترین