• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے قطر میں طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے ذمہ داران کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دو راؤنڈ ہونے کی خبروں کی اگرچہ امریکہ اور طالبان دونوں کی طرف سے تردید کی گئی تھی لیکن اب نہ صرف مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق ہو رہی ہے بلکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ قطر میں طالبان کے سیاسی کمیشن کے بعض سینئر ارکان بدھ کے روز دوحہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہو چکے ہیں تاکہ وہ افغان حکومت سے امکانی مفاہمت کے نتائج و عواقب کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کر سکیں۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان 2013سے منقطع ہونے والے مذاکرات کا احیاء اگرچہ ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا ممکن نہیں لیکن اس کے لئے ہونے والی اب تک کی پیش رفت اور طالبان کا اس حوالے سے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا بہرحال اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کابل حکومت اور اس کے مغربی اتحادی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ وہ طالبان کو فوجی شکست نہیں دے سکتے جبکہ طالبان بھی بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کے بڑے شہروں پر زیادہ دیر تک اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے چہ جائیکہ کہ وہ افغان حکومت کا دھڑن تختہ کر کے پورے ملک پر قبضہ کر سکیں۔ اس صورت حال میں کسی سمجھوتے پر پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے کوئی مستقل اور دیرپا حل تلاش کیا جا ئے۔ امریکہ ایک عرصہ سے پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغان حکومت اور طالبان سے مل کر اس خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ تاہم افغان حکومت کا بھارت کے زیر اثر ہونے کے باعث پاکستان کے خلاف جو رویہ رہا ہے اس کی وجہ سے امن عمل میں اسلام آباد پہلے کی طرح پرجوش نظر نہیں آرہا تھا لیکن لگتا ہے کہ اب طالبان اور افغان حکومت دونوں آہستہ آہستہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کو الگ کر کے وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔امید ہے کہ قیام امن کے حوالے سے اس سوچ کے مثبت نتائج سامنے گے۔

.
تازہ ترین