• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ سے ’’مسلم لیگ‘‘ تو کبھی کی غائب ہو گئی۔ شاید ہی کوئی نظریاتی مسلم لیگی ہو گا جو اب تک اس غیر نظریاتی لیگ سے وابستہ ہو۔ ہے تو وہ بھی ’’مفاہمت‘‘ میں مبتلا ہو کر ن سے سمجھوتا کر بیٹھاہے۔ جیسے اپنے بزرگوار راجہ ظفر الحق، صدر ممنون حسین ایک اور ایسے بزرگ ہیں جنہیں سچا مسلم لیگی مانا جا سکتا ہے، لیکن وہ اب ن لیگی نہیں، صدر مملکت ہیں۔ وہ سچے لیگی ہیں تبھی تو ایوان صدر، زرداری، گیلانی دور کی طرح پارٹی کا ڈیرہ بنا نہ ہی پریذیڈنسی میں پرائم منسٹر ہائوس کی طرح کوئی پروپیگنڈہ سیل ویل بننے کی کوئی گنجائش بنی، تاہم کسی موقع یا عوامی تڑپ کو محسوس کرتے ہوئے ایوان صدر سے وقتاً فوقتاً بطور صدر مملکت اور ایلڈر اف دی نیشن کے جناب ممنون حسین کی بلندکی انسداد کرپشن کی صدا سنائی دیتی رہی۔
آپ نے تو پاناما لیکس کے حقائق بے نقاب ہونے پر بھی اسے ’’آسمان سے نازل ہوا عذاب‘‘ قرار دیا تھا۔ ان کا یہ ابلاغ جتنا مختصر تھا اتنا ہی معنی خیز اور ان کی آئینی حیثیت اور رتبے کے مطابق تھا۔ کیا حکمراں کیا اپوزیشن اور کیا متعلقہ ریاستی ادارے، کون ہے جو پاکستان کے کرپشن زدہ ہونے سے انکاری ہے۔ اور انسداد کرپشن سے اتفاق نہیں کرتا؟ حتیٰ کہ جو عوام کی نظر میں بڑے بڑے وائٹ کالر کرائمز کے مجرم ہیں، انہیں بھی کرپشن کی موجودگی اور اس کے انسداد سے اتفاق کرنا پڑتا ہے، جیسے پاکستان کے ہر فوجی دور میں ملک کے لئے جمہوریت کو لازم مان کر اپنے اپنے گھڑے جمہوریت کے ماڈلز کو ’’اصلی جمہوریت‘‘ قرار دینا پڑا اور جس طرح آئین 1973کو حتمی اور متفقہ بنانے کے بھی خود بھٹو صاحب اور بائیں بازو کی علاقائی سیکولر جماعتوں کو بھی پاکستان کی آئینی حیثیت ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ سے اتفاق کرنا پڑا جو تادم موجود ہے، جس طرح پاکستانی سیاست کا متفقہ ایجنڈا دو فوجی ادوار کے بعد، آئین 73کی اصلی حالت میں بحالی بنا تھا، اسی طرح ’’انسداد کرپشن‘‘ سے کوئی پارلیمانی طاقت انکاری نہیں نہ ہو سکتی ہے، تازہ ترین پیش رفت حوصلہ افزا ہے کہ اب اس متفقہ ایجنڈے (انسداد کرپشن) کو ممکن بنانے کے لئے احتساب پر بھی جیسے تیسے اتفاق ہو چلا ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، کارکن، سیاسی دانشور اور دوسرے رائے ساز جتنی جلد اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ، پاکستان میں کرپشن کا بازار تب گرم ہوا جب سیاسی جماعتیں اپنا نظریاتی تشخص کھونے لگیں، تو یہ پارٹیاں سنبھل سکتی ہیں، اپنا یہ خاصہ سب ہی جماعتوں نے کھو دیا یا یہ کم تر ہوتا گیا۔ جس طرح ن لیگ اپنی نظریاتی حیثیت کھو کر فقط ن لیگ بن کر رہ گئی، اسی طرح پی پی اب عوام کی ہے نہ بھٹوز کی، یہ مکمل زرداری پارٹی بن چکی ہے، بڑے بڑے نظریاتی اس سیاسی سودے کے اسیر ہو چکے جب ایوان و دربار سے دور بڑے بڑے نظریاتی لیگی یا پی پی کے روایتی جیالے مقتدر لونڈوں لونڈی کے سامنے نمک کی کان میں نمک بن جانے والے سیاسی انکلز کو ہاتھ باندھے دیکھتے اور ان کی جی جی سنتے ہیں تو پریشان ہو کر اس سیاست بد سے اور دور ہو کر کسی کونے کھدرے میں پناہ سے اطمینان محسوس کرتے ہیں، لیکن اب جو پاناما کا عذاب آسمان سے نازل ہوا ہے، اس میں مقبول عام نظریاتی اور تاریخ ساز پارٹیوں کو گھروں میں سمیٹنے والے سربراہان خاندان اور تیار سیاسی اولاد کی پریشانی نئے متفقہ ’’ایجنڈے انسداد کرپشن اور احتساب‘‘ خواہ یہ احتساب دل سے ہے یا زبان سے، اسے ٹالنا ممکن نہیں رہا۔ عمران خان جنہوں نے Focus demands Sacrifice کے فلسفہ جہد پر عمل پیرا ہو کر اپنے ون پوائنٹ ایجنڈے ’’انسداد کرپشن اور احتساب‘‘ کو سیاسی طور پر منوانے میں تو کامیابی حاصل کر لی ہے، لیکن وہ خود کونسے اپنے احتساب کے سوالات اور مطالبے سے بچے ہوئے ہیں۔ ن لیگ ان پر جتنے الزامات لگا چکی ہے، وہ ایک ٹھیک ٹھاک چارج شیٹ ہے۔ لیکن اس کی تیاری کے بعد وہ حکومتی اختیار کے ساتھ کچھ نہیں کرتی سب لغو ہو گا۔ دوسرے خان صاحب پارٹی کے انتخابات (جن سے انہیں عام انتخابات تک دور رہنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا) میں انتخابی گھپلوں اور مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے حوالے سے بہت سے چبھتے سوالات کی زد میں عرصے سے ہیں۔
انہوں نے بہت محترم ایلڈر اف پارٹی جناب جسٹس وجہیہ الدین سے انکوائری کرا کر الزامات کی صداقت کی تصدیق بھی کرا لی، لیکن اس کے بعد سے وہ ریاستی اداروں کی طرح خاموش کیوں؟ خود جناب جسٹس (ر) وجہیہ الدین، پی ٹی آئی نظریاتی کونسل کے کنوینر ظفر عزیز (امریکہ) بہاولپور میں پی ٹی آئی کے سرگرم ڈاکٹر حفیظ قیصر اور ایک دیرینہ نظریاتی کارکن اکبر ایس بابر پارٹی کے امور میں ہونے والی بدعنوانیوں کا شدت سے مطالبہ کرتے کرتے مایوس ہو کر اب نئی راہیں خود بناتے نظر آتے ہیں۔ وہ فلسفہ خود احتسابی پر گامزن ہیں۔ ن اور جنونی پی ٹی آئی تو ایک دوسرے کے خلاف چارج شیٹس تیار کر کے احتساب کا شور مچا رہے ہیں۔ پیچھے پی پی بھی نہیں، وہ بھی 27کے بعد قوم کو انسداد کرپشن اور احتساب سے اتفاق کا یقین دلانے کے لئے کچھ ہل جل کا ارادہ رکھتی ہے۔ قوم سب کے ساتھ ہے احتساب کے اس موسم میں خلق خدا کی اک ہی صدا ہے۔ ن و جنون قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔



.
تازہ ترین