• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے یقینی کے بڑھتے سایوں سے پھوٹی ہے، اُمید کی کرن! عدالت عظمیٰ نے بروقت فیصلہ کیا ہے۔ اور پاناما کیس کے طرفین کو دھرنے سے ایک روز پہلے ہی طلب کر کے ہوش کے ناخن لینے کا رستہ دکھلایا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے معقولیت کا مظاہرہ کیا ہے اور عدالتی فیصلے کے سامنے سرنگوں ہونے کا ارادہ ظاہر کر کے، مفاہمت کا راستہ کھول دیا ہے۔ کچھ سیاسی نابالغ اور بہت سے مہم جو مصر ہیں کہ آئینی نظامِ حکومت کو منہدم کر کے فوج کو روایتی مداخلت کا راستہ اختیار کرنے پہ مجبور کریں۔ ایسی ہی کوشش 2014ء کے دھرنے کے وقت کی گئی تھی جو ہماری پارلیمنٹ اور سچے سپاہی جنرل راحیل شریف نے خاک میں ملا دی تھی۔ وگرنہ آئینی سے غیرآئینی مسافت میں فقط چند گزوں کا فاصلہ تو رہ گیا تھا۔ اب کی بار پھر مہم جو اُسی جمہوریت کا تیا پانچہ کرنے نکلے ہیں جس کی ڈولی میں بیٹھ کر وہ عوام کی حمایت سے اقتدار کے سسرال پہنچ سکتے ہیں۔ عمران خان میں کمال کا دم خم ہے، وہ بار بار خم ٹھونک کر اُٹھتے ہیں اور طوفان بپا کر دیتے ہیں اور اس طرح کہ پیچھے ہٹنے کا راستہ بھی نہیں چھوڑتے۔ اُن کے ساتھ کچھ لوگ ہیں جو اُنہیں چوٹی پہ چڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور جب وہ آخری سیڑھی پہ پہنچ جاتے ہیں تو نیچے اُترنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ سیاسی گرداب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اس بار پھر اُنہوں نے فیصلہ تو تمام حدوں کو پھلانگنے کا کیا ہے اور راجدھانی کو ٹھپ کر دینے کی ٹھانی ہے۔ سراسیمگی تو خان صاحب نے پہلے ہی پیدا کر دی ہے اور پاناما لیکس کو وہ ایک بڑا عوامی مُدا بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن شریف حکومت اپنی نکیل کسی بندر کے ہاتھ کیوں دے؟ اور کوئی راستہ نکالے بنا چارہ بھی نہیں!
ہنگامہ خیزی کی برسات میں، طرح طرح کے مینڈک بھی نکل آتے ہیں اور ہم اُنہیں کونے کھدروں سے نکلتا دیکھ بھی رہے ہیں۔ وقت بھی کچھ ایسا ہی ہے جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی اہم ترین تعیناتیاں ہونے کو ہیں اور بہت سے نام زیرِ غور ہیں۔ اور یہ اختیار وزیراعظم ہی کا ہے کہ اُن کی حسنِ نگاہ کس خوش قسمت پر پڑتی ہے۔ ایسے میں سڑکوں پر دھول اُڑا کر وزیراعظم کو کیوں دبائو میں لایا جا رہا ہے؟ خود وزیراعظم ہائوس میں کوئی تھا جس نے سلامتی کے ایک اجلاس کی جھوٹی سچی خبر دے کر وزیراعظم کے لئے دردِ سر پیدا کرنے کا سامان بھی پیدا کر دیا ہے۔ اور ہمارے ہنگامہ پرور ناسمجھوں کی باچھیں ہیں کہ کھلی جا رہی ہیں اور اُنہوں نے کھسر پھسر کا بازار گرم کر دیا ہے کہ بس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں تنازع ہونے کو ہے اور اسے بس ایک دھماکہ خیز دھکے کی ضرورت ہے کہ اُن پر اقتدار کے باغِ عدن کے دروازے کھل جائیں گے۔ میرے ایک دوست ریٹائرڈ جنرل صاحب نے میری تشویش پر خوب کہا کہ ’’اچھے جرنیل کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسی لڑائی میں نہ پڑا جائے‘‘۔ اور جنرل راحیل شریف نے اپنی باکمال قیادت سے جو نیک نامی کمائی ہے (اور وہ ایک فاتح جرنیل کے طور پر گھر سدھارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں)، وہ اُس اخلاقی دولت کو کیوں ضائع کریں گے۔ لیکن جس کے پاس ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی اخلاقی و آئینی جواز نہیں، وہ کس منہ سے ایک شریف کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ معاملہ کرپشن کے خاتمے کا عمران خان کو اتنا ہی عزیز ہے تو وہ کرپشن صفائی کا آغاز گھر سے یعنی تحریکِ انصاف ہی سے شروع کرتے۔
انتخابی دھاندلی کا مسئلہ ہو یا پھر کرپشن کے احتساب کا، عمران خان اسے دھواں دھار بائولنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور اس میں اُن کا فی الوقت کوئی ثانی نہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ ایک سنجیدہ جمہوری متبادل کے طور پر سامنے آتے، اُنہوں نے نوجوانوں کو اک نئی اُمید دلا کر کمال کر دکھایا، لیکن اُنہوں نے انہیں کوئی مثبت پیغام دینے اور ’’تبدیلی‘‘ کا کوئی ٹھوس پروگرام دینے کی بجائے، گالی گلوچ پر لگا دیا ہے اور وہ ایک بڑے اصلاح کار کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح کے غصیلے کردار بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف ہیں کہ تابڑ توڑ ذاتی حملوں اور گالی گلوچ کے جواب میں ہیلری کلنٹن کی طرح ہوشمندی اور متانت کا دامن نہیں چھوڑ رہے۔ عمران خان کے پاس وقت کم ہے۔ عمر ہے کہ سرپٹ دوڑے جا رہی ہے اور امکان ہیں کہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سے جھنجھلاہٹ تو پیدا ہونی ہی ہے۔ لیکن وزیراعظم کے پاس وقت بھی ہے اور اگلے انتخابات میں جیسا تیسا کیس پیش کرنے کی استطاعت بھی۔ پھر وزیراعظم کیوں مصالحت کے دروازے نہیں کھول رہے۔ اگر عمران خان نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو دھتکار دیا ہے تو وزیراعظم باقی جماعتوں کو کیوں کسی قابلِ عمل فارمولے پر آمادہ کرنے کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ پاناما لیکس ایک ایسی چھچھوندر ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اُگلی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور فریقین کو آئینی راستہ دکھلایا ہے۔ یہ ریاست کے طاقتور اداروں کے لئے بھی اچھا پیغام ہے کہ ’’ہم ہیں ناں!‘‘ اور آپ دہشت گردی اور سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کی جانب اپنی توجہ برقرار رکھیں۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لئے ایک مربوط نظام کی تشکیل کے لئے حزبِ اختلاف کو پھر سے پارلیمانی کمیٹی یا ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی میں مل بیٹھ کر کسی قابلِ اعتبار نظامِ احتساب کی تشکیل کرنے کی دعوت دیں۔ ڈان کی خبر کے قضیے کو نمٹائیں۔ اور نئے آرمی چیف کی نامزدگی کے لئے فوج کی اعلیٰ قیادت سے مشورہ کر کے وہی کریں جو ہماری اعلیٰ عدلیہ کی روایت بن گئی ہے۔ سینئر ترین کو آرمی چیف بنائیں اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کیلئے ائیرفورس یا نیوی سے تعیناتی کریں۔ اِس معاملے میں پیشہ ورانہ روایت کو مضبوط کرنے ہی میں ادارے کا بھلا ہے۔ کاش! امریکہ کی طرح ہمارے ملک میں بھی یہ ہو پاتا کہ نامزد سروسز چیفس پارلیمنٹ کی کسی مشترکہ کمیٹی میں پیش ہو کر اپنی حکمتِ عملی پیش کرتے اور وہ مشترکہ کمیٹی اُن کی نامزدگی کی تصدیق کرتی۔ لیکن یہ ابھی دور کی بات ہے۔
عمران خان کو چاہئے کہ وہ پاناما لیکس کی چائے دانی کو گرم رکھیں اور اگر مسلم لیگ نواز اگلے انتخابات سے قبل اس گھنٹی کو اپنے گلے سے اُتار نہیں پھینکتی تو وہ اسے خوب بجا سکتے ہیں۔ لیکن وہ جو قبل از وقت اور بغیر انجام کے جانے کس اندھیرے کنویں میں چھلانگ لگانے پر بڑی بہادری سے بضد ہیں، اُس کا انجام اُن کے لئے بھی بہتر نہ ہوگا۔ جب سیاستدانوں کے ہاتھ سے بات نکل جاتی ہے تو پھر عربی گھوڑے میدان میں اُترتے ہیں جنھیں صرف سیاسی خچروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کپتان جو خود ایک عربی گھوڑے ہیں، وہ مال برداری کا ٹٹو بننے سے رہے۔ اگر وہ اس بار قادری صاحب کی بجائے مولانا سمیع الحق اور اُن کی زیادہ تر کالعدم جماعتوں کے ہتھے چڑھ گئے تو سمجھئے یا اُن کی خیر نہیں یا پھر ملک کی خیر نہیں کہ شکست سے دوچار انتہاپسند اور دہشت گرد قوتیں پھر سے واپسی کے لئے ان کا کندھا استعمال کر کے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ ویسے بھی وہ دو (2) نومبر کے دھرنے سے پہلے 28 اکتوبر کو اسلام آباد پہ یلغار پہ تلی ہیں۔ اور یلغار سے قبل ہی اُنہوں نے شیڈول چار میں درج انتہاپسندوں کے نام نکلوانے اور اُن کے شناختی کارڈوں کی بحالی کا مطالبہ اپنے ہمنوا وزیرِ داخلہ سے منوا بھی لیا ہے۔ اور اگر وہ اُن کے ساتھ پھر بھی شامل ہوتے ہیں تو وہ طالبان خان کی تہمت کو حقیقت میں بدلنے سے رہے۔ ان کے لئے آئینی مُک مکا ہی بہتر ہے ورنہ خچر کی طرح مال برداری کے کام آنے سے وہ رہے۔



.
تازہ ترین