• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوریت کی مثال اس طالبعلم جیسی ہے۔ جسے تین گھنٹے کا پرچہ حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے مگر ہر پندرہ منٹ بعد کہا جاتاہے کہ بس وقت ختم ہورہا ہے ۔یونہی کرتے کرتے تین گھنٹے گزر جاتے ہیں اور طالبعلم دباؤ کی وجہ سے کچھ بھی نہیں لکھ پاتا اور نتیجے کے روز فیل قرار پاتا ہے۔امتحانی رزلٹ میںفیل ہونے پر کوئی بھی شخص ممتحن کے کردار پر غور نہیں کرتا بلکہ سارا قصور طالبعلم کاہی ٹھہراتا ہے۔بالکل ایسے ہی ملک میں جمہوریت کا حال ہے۔جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار ہوتی ہے تو اسے رخصتی کی تاریخیں دے دے کر اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مدت تو پوری کرلیتی ہے مگر کوئی کام نہیں کرسکتی۔پھر جب احتساب کی بات آتی ہے تو تمام غیر جمہوری قوتیں ایسے باہر نکل جاتی ہیں جیسے" آٹے میں سے بال" اور سارا ملبہ سیاسی حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر آج تک جائزہ لے لیں ۔ہر منتخب حکومت کے ساتھ یہی ہوتا آیاہے۔جان بوجھ کر غیر جمہوری قوتیں منتخب جمہوری حکومت کو کام نہیں کرنے دیتیں اور پھر نتیجے کے دن سارا قصور فیل ہونے والی حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی اس ممتحن کے کردار پر غور نہیں کیا ۔جو پورا پانچ سال جمہوری حکومت کے اوپر تلوار کی مانند کھڑا ہوتا ہے۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ذوالفقا ر علی بھٹو کے دور سے ہی معاملات کو اٹھا کر دیکھ لیں۔جمہوری حکومت جونہی مضبوط ہونے لگی مختلف تحریکیں چلوا کر منتخب حکومت کا بسترا گول کردیا گیا۔طویل آمریت کے بعد ملک میں دوبارہ جمہوریت آئی تو جمہوری فورسز کو ایک دوسرے کے خلاف کھل کر استعمال کیا گیا۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ90کی دہائی میں وزیراعظم نوازشریف صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید غیر جمہوری قوتوں کے لئے راستہ ہموار کرتے رہے۔کبھی اس ہموار راستے کا فائدہ غلام اسحاق خان نے اٹھایا تو کبھی جنرل(ر) پرویز مشرف نے۔مگر اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوری حکومت کبھی بھی نتیجے کے روز کامیاب قرار نہیں پائی۔حتی کہ گزشتہ دور حکو مت میں پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کے ساتھ بھی یہی صورتحال رہی۔میمو گیٹ معاملے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔زرداری حکومت کی خامیاںاور سنگین غلطیاں اپنی جگہ پر مگر ہم نے جمہوری حکومت کے بجائے غیر جمہوری فورسز کا ساتھ دے کر اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔اس ساری صورتحال میں لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھتا رہا اور غیر جمہوری قوتوں نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں اور پرفارم نہیں کرسکتے۔حالانکہ سیاستدان ماضی میںہمیشہ اپنے اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنتے رہے اور طاقتیں انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی رہیں۔جمہوری حکومت کو رخصت کرنے کے بعد سارا مفاد غیر جمہوری فورسز نے اٹھایا مگر سیاستدان اس سارے کھیل کو سمجھ نہیں سکے۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔صرف ہمسایہ ملک بھارت کی مثال اٹھا کر دیکھ لیں۔1951سے لے کر 1957تک بھارت میں ایک وزیراعظم تھے اور کئی آرمی چیف آتے جاتے رہے۔مگر پاکستان میں آرمی چیف صرف ایک رہا مگر کئی وزیراعظم بدل گئے۔یہ صرف ایک مثال ہے مگر غور کرنے والوں کے لئے اس میں کئی راز پنہاں ہیں۔
آج پاکستان میں ایک بار پھر دھرنے اور ملک کو بند کرنے کی باتیں عروج پر ہیں۔ملکی سیاست میں دھرنا دینا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہر دھرنے کے بعد اس کی جگہ آمروں نے آکر لی ہے۔دھرنا تحریک چلانے والے کبھی بھی مستفید نہیں ہوسکے۔ملکی تاریخ کا پہلا لانگ مارچ 1958میں شروع کیا گیا۔خان عبدالقیوم خان نے یہ تحریکیں اسکندر مرزا کے دور میں چلائیں۔اس احتجاجی تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار فوجی جرنیل ایوب خان کے پاس چلا گیا۔اسی طرح دوسری بڑی تحریک 1968میں ایوب خان کے خلاف چلی اور اقتدار پھر فوجی جنرل یحیی خان کے ہاتھ میں چلا گیا۔پھر تیسری مرتبہ جمہوری دور حکومت میں احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کیا گیا۔جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب کی حکومت الٹ دی گئی او ر اقتدار فوجی جرنیل ضیاالحق کے پاس آگیا۔ایم آر ڈی کی تحریکوں نے محمد خان جونیجو کو 1985میں وزیراعظم تو بنادیا مگر ضیا الحق کی موجودگی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔اسی طرح 90کی دہائی میں بے نظیر بھٹو شہید او ر وزیراعظم نوازشریف ایک دوسرے کے خلاف آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔جس کا فائدہ بالآخر آمر حکمران پرویز مشرف نے اٹھایا اور ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ کردیا۔تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کرانے کا وعدہ تین سال طویل ہوگیا۔تاریخ نے گزشتہ ادوار میں یہ منظر بار بار دیکھا کہ جمہوری فورسز نے جب بھی غیر جمہوری قوتوں کے کہنے پر تحریکیں چلائیں۔اس کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ آمر حکمرانوں کو ہوا۔عمران خان صاحب اگر اسٹیبلشمنٹ کے اتنے پیارے ہوتے تو مشرف دور میں ریوڑیوں کی طرح بٹتی وزارت عظمیٰ میں دو ،تین ماہ کے لئے آپکو بھی وزیراعظم بنا دیا جاتا۔جیسے ماضی میں سیاستدانوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔کئی لوگوں کا تاثر ہے کہ آج ایک بار پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے دھرنے کے لئے دو نومبر کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔تین نومبر سے ایک روز قبل دھرنے کا اعلان محض ایک اتفاق ہوسکتا ہے مگر جمہوری تاریخ میں 3نومبر 2007کی مناسبت سے اسے غیر آئینی اقدام کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔اسی دن کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مرتبہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کھلی عدالت میں کہا تھا کہ "اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں ملوث ہونا خود ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے"بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن کیا سیاستدانوں کے ذریعے غیرجمہوری قوتیں تاریخ کو دہرا تو نہیں رہیں۔ عمران خان صاحب کے دھرنے میں جن عناصر کو ساتھ ملا کر اسلام آباد کو جام کرنے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ کیا یہ پاکستان کا مثبت چہر ہ ہوگا؟ اگر مدارس اور مذہبی جذبات کو ابھار کر انہی لوگوں کو سڑکوں پر لایا گیا۔ جن میں سے بعض نے پوری دنیا میں ہماری آنکھیں جھکا دی ہیں۔ چین جیسا دیرینہ دوست بھی مسعود اظہر کے معاملے پر ہاتھ کھڑا کرنے والا ہے۔ ہم ایسے میں دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔بالا فورسز کو جمہوریت کے خلاف استعمال کرنا مہذب دنیا کو مزید اپنے خلاف کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کو بھی سوچنا چاہئے کہ اکوڑہ خٹک، مرید کے اور جنوبی پنجاب کے ایک طبقے کے لوگ آپکی مقبولیت کی وجہ نہیں ہیں۔ آپ ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جس میں جلد یہ کیفیت آنے والی ہے کہ آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی…



.
تازہ ترین