• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ اتوارکو جب ملک کی مایہ ناز اور جی دارخاتون محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے صاحبزادے کراچی میں پیپلز پارٹی کی کھوکھلی حیثیت کو توانا ثابت کرنے کی خاطر شہر بھر کے راستے بند کر کے شہریوں کیلئے موجب پریشانی و دشواری بنے ہوئے تھے، تو اسی روز پختونخوا کے جگر مردان میں جناب پرویز رشید تحریک انصاف پر برس رہے تھے۔ شکر گڑھ مردان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حضرت کا فرمانا تھا ’’پختون قوم 2018کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا صفایا کر دیگی‘‘ اس موقع پر جنرل پرویز مشرف کے سابق وفادار امیر مقام کا ارشادعالی تھا‘‘ 2018کے انتخابات میں پختون قوم عمران خان سے مینڈیٹ لے کر نواز شریف کو دے گی‘‘ … گویا پختون اپنے لئے کچھ نہیں سوچیں گے بس کبھی ایک کے حوالے اپنا اختیار کر دیں گے کبھی اس سے لے کر دوسرے کو یہ تفویض کر دیں گے، پھر ظلِ الٰہی جو چاہے کرتے رہیں گے اور بیچارے پختون پہاڑی پر بیٹھ کر سرو تال کے شور و آہنگ میں بس یہی گنگناتے رہ جائیں گے۔
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
یہ’ ڈیوٹی ‘ایسی ہے جو احسان جتا کر ان پر تھوپی جاتی رہی ہے۔ ابھی کل ہی کا واقعہ ہے کہ دنیا جہان کے عرب، تاجک، ازبک، چیچن اور نہ جانے کون کون ان کے مہمان تھے۔ پھر جب ایسے پختونوں سے کہا جاتا کہ پختون تواسلام پسند و مہمان نواز ہوتے ہیں، تو پھر مغلوبِ جذبات ہوکر ان کے ساتھ افغانستان جا کر اپنے ہی پختونوں کو خون میں نہلاتے اور یہ فخر جتاتے کہ دیکھئے ہم نے مہمان نوازی واسلام پسندی کا کیا تاریخی حق ادا کر دیا … جس پر ان کو داد دی جاتی اور یوں یہ’ ٹھیکہ‘ جاری رہتا، بلکہ آج تک پختونوں ہی کے پاس ہے۔ حضرت باچا خان نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ پختون ایسے بدبخت ہیں جو دوسروں کے گھر کی خاطر اپنا گھر تباہ کر دیتے ہیں۔ خیر ہم بات پرویز رشید صاحب کی کر رہے تھے۔اس روز کے جلسے میں پی ٹی آئی بالخصوص وزیر اعلیٰ پختونخوا کی کارکردگی کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا اور پھر جس کا انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ 2018 میں پختون قوم پی ٹی آئی کا صفایا کر کے مسلم لیگ کوا قتدار کی سنگھا سن پر لا بٹھا دے گی، اس مفروضے کے تناظر میں بہر صورت دونوں جماعتوں کا موازنہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔
پرویز رشید صاحب نے چونکہ لفظ قوم استعمال کیا ہےعوام نہیں، یعنی پختون قوم... تو دیکھنا یہ ہو گا کہ پختونوں کے قومی ایشوز پر دونوں جماعتوں کی کارکردگی کیا ہے۔ اگر پختون عوام کہا جاتا، تو اس سے مراد پختونوں کے روز مرہ کے مسائل و مشکلات لی جاتیں لیکن جب پختون قوم کہا گیا ہے تو اس سے مراد اس قوم کے زیست و خاک سے جڑے بڑے معاملات ہی ہوں گے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مقرر اس طرح الفاظ کی حرمت و فرہنگ کا خیال نہ رکھے، بلکہ پاکستانی سیاستدانوں کی غالب اکثریت تو اس سے آگاہ بھی نہیں ہے، لیکن جب بات پرویز رشید صاحب جیسے صاحبِ علم و عرفان کی ہو تو پھر یہ یقین محکم ہوتا ہے کہ جو کہا جا رہا ہے وہ معنی و مفاہیم کے آوزان کے ہم آغوش ہے۔
راقم کے خیال میں معروضی حالات میں دیگر کے علاوہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام، سی پیک اور بجلی کی رائلٹی قومی ایشوز ہیں۔ اب جب ان ایشوز پر ہم بات کرتے ہیں تو فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے اگرچہ مسلم لیگ یعنی وفاقی حکومت کا رویہ بھی مثبت ہے لیکن اس حوالے سے خیبر پختونخوا کی حکومت نہ صرف مسلم لیگ بلکہ قوم پرستوں سے بھی آگے ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا جناب پرویز خٹک فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی خاطر قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہاں یہ اعزاز البتہ فاٹا کے منتخب اراکین قومی اسمبلی و سینیٹرز کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے قائد حاجی شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں تمام قبائلی علاقوں میں اس پر عظیم اتفاق رائے پیدا کرلیا ہے۔ ممتاز قانون دان جناب عبداللطیف آفریدی بھی ان کاوشوں میں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن ان کی جماعت اے این پی جیسا کہ توقع تھی ،وہ کردار تاحال ادا کرنے میں ناکام ہے۔ کسی جلسے میں اس سلسلے میں دوچار جملے بولنا رسمی بات ہے اور قومی معاملے پر حضرت باچا خان کے پیغام اور ولی خان بابا کی سیاست اپنانا اصل بات ہے۔ بلکہ بعض اصحاب ِفکر و نظر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’لر او بریو افغان‘‘( پاکستان و افغانستان کے افغان ایک ہیں) کا نعرہ لگانے والوں نے قبائلی علاقوں (فاٹا) اور بندوبستی علاقوں ( صوبہ پختونخوا) کے پختونوں کے ایک ہونے کے ایشو پر چپ سادہ لی ہے۔ جذباتی نوجوان تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ جو انضمام پر مصلحت کا شکار ہیں یا کسی ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ ان قوتوں کے ایجنٹ ہیں جو پختونوں کو ایک ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ راقم سے ان دنوں قبائلی علاقوں کے جن طلبہ نے بھی رابطہ کیا، جہاں اس ناچیز نے ان میں ایمل خان مومند کی خودی اور دریا خان آفریدی کی حمیت دیکھی، وہاں رہ رہ کر اپنے نظریاتی رفیقوں کے حال وقال اور بے حسی یا بے بسی پر جیسے بے چارگی سی بے چارگی بھی محسوس ہوئی ۔ پروین شاکر نے کہا تھا۔
یہ دُکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں
جہاں تک سی پیک کی بات ہے تو اس حوالے سے تنازع ہی پرویز رشید صاحب کی حکومت کا پیدا کردہ ہے،جبکہ وزیر اعلیٰ پختونخوا اپنی قوم کے سنگ ہیں، فرق واضح ہے ۔
بجلی کی رائلٹی وفاق اور پختونخوا کے مابین ایک دیرینہ معاملہ ہے۔ ویسے تو وفاق نے اس کی ادائیگی سے کبھی انکار نہیں کیا ہے لیکن تاویلات اورادائیگی میں اس کا ٹریک ریکارڈ انتہائی ابتر ہے۔ تاریخ کا سچ یہ ہے کہ صوبوں کو ان کے قدرتی وسائل کی رائلٹی کا حق نیشنل عوامی پارٹی( نیپ) نے ہی وفاق سے منوایا تھا۔ بنابریں یہ عالم طمانیت ہے کہ آج پرویز خٹک صاحب،خان عبدالولی خان کے حاصل کردہ صوبائی حق کی وصولی کیلئے بے باک کردار ادا کر رہے ہیں۔
راقم الحروف کی نظر میں پی ٹی آئی قطعی طور پر قوم پرست جماعت نہیں، لیکن مذکورہ قوی ایشوز پر تحریک انصاف قوم پرست جماعتوں سے بھی آگے ہے، چہ جائیکہ مسلم لیگ اس کا مقابلہ کرے۔ چنانچہ مسلم لیگ کس بنیاد پر پختون قوم کے ووٹ سمیٹنے کےخواب دیکھ رہی ہے، اس کا جواب قرض رہا۔البتہ ’اگر‘ انتخابات کا موقع آتا ہے،مقابلہ کن جماعتوں میں ہوگا، اس پر بحث آئندہ سہی، فی الحال معروضی کشاکش کے تناظر میںپرویز رشید صاحب کی خدمت میں ڈاکٹر محمد علی خان صائب امروہوی کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
اگر پھر سرِ طور آئو تو جانیں
ہمیں اپنا جلوہ دکھائو تو جانیں
جو کل کیلئے تم نے رکھی ہے رِندوں
وہ مے تشنہ لب کو پلائو تو جانیں
سزا جس کے کہنے کی دارو ر سن ہے
وہ رازِ نہاں لب پہ لائو تو جانیں
سکوں عام ہو جس سے دنیا میں صائب
کوئی انقلاب ایسا لائو تو جانیں



.
تازہ ترین