• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’برکس‘‘ (BRICS) دنیا کا ابھرتا ہوا معاشی اتحاد ہے۔ یہ اتحاد دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ برکس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ اب تک اس کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔ 16؍ اکتوبر 2016ء کو بھارت کے شہر گوا میں اس کا سالانہ سربراہی اجلاس ہوا۔ اس میں دہشت گردی کے علاوہ معیشت، غربت اور اس علاقے کے دیگر گمبھیر مسائل پر خاطرخواہ بات نہیں ہوئی، حالانکہ اس وقت جنوبی ایشیا کے عوام مختلف نوعیت کے مسائل اور معاشی و معاشرتی الجھنوں کے مساوی شکار ہیں۔ علاقے میں بسنے والے کروڑوں افراد کے درمیان جہاں نت نئی او رپیچیدہ بیماریوں، بڑھتے ہوئے افلاس، زندگی کی آس چھینتی غربت، ترقی اور خوش حالی کی راہ میں حائل جہالت، کمزور طبقات کے لئے سنگین مشکلات پیدا کرتی گرانی، احساس محرومی پید اکرتی پس ماندگی، بنیادی ضروریات زندگی کا فقدان، اہلیت اور قابلیت کے باوجود بے روزگاروں کی بہتات اور اقتصادی پالیسیوں کی ناہمواری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افراطِ زر نے آہنی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو اس وقت پوری دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگوں کو بمشکل روٹی میسر ہے۔ ان میں سے 80 کروڑ انسانوں کو وقتاً فوقتاً بھوکا سونا پڑتا ہے۔ 25 ہزار افراد غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ ایک کروڑ 4 لاکھ افراد مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بچوں کی تعداد تقریباً دو ارب بیس کروڑ ہے، ان میں سے ایک ارب بچے غربت وافلاس کی آغوش میں پل رہے ہیں۔ ہر سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی انسان بھوک کی وجہ سے جان دیتا ہے۔ افریقی ممالک میں غربت اپنی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ ہندوستان میں غربت کے خاتمے اور سماجی بہبود کے متعدد پروگراموں کے باوجود آبادی کا ایک بڑا حصہ غذا کی کمی اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ دنیا کے تسلیم شدہ 245 ممالک میں سے چند ترقی یافتہ ہیں، بیس تیس ترقی پذیر اور باقی سب پسماندہ ہیں۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک میں غربت وافلاس اور بھوک کی صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں تین مسئلے اہم ترین ہیں۔ ایک، بڑھتی ہوئی دہشت گردی۔ دوسرا، گرتی ہوئی معیشت۔ تیسرا، خوراک کی قلت۔ گزشتہ چند سالوں سے جی ایٹ سے لے کر ڈی ایٹ تک، اقوام متحدہ سے لے کر او آئی سی تک، ہر چھوٹی بڑی تنظیموں کے اجلاسوں کا مرکزی نکتہ یہی تین مسئلے رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں نائن الیون کے بعد سے غربت، مہنگائی، بیماری اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور دہشت گردی، غذائی اور معاشی بحران اور اشیائے خورونوش کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ان کا حل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ پہلے مختصراً اسباب پر بات کرتے ہیں پھر حل کی تلاش کی طرف آئیں گے۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے اسباب میں سرفہرست ناانصافی، محرومی، ظلم وستم اور خون ناحق ہے۔ غربت کے اسباب میں سرفہرست دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، ارتکازِ دولت، سود، جوا، سٹہ، قمار اور سب سے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سال بہ سال کےاعدادوشمار نکال کر دیکھ لیں۔ ہر سال بلکہ ہر اگلے دن غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ رزق کی تنگی کے بہت سے اسباب ہیں۔ معاشی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں بھوک اور بیماری بڑھ رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے مابین نفرتیں پیدا کرکے انہیں اسلحے کی منڈی بنادیا گیا ہے۔ ان وجوہات میں ظلم وناانصافی، اسمگلنگ، ہیروئن، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ڈاکہ زنی، ریپ، اغوا، ٹیکس چوری، قتل وغارت، ہوس ملک گیری اور دیگر برائیوں کا وبال رزق کی تنگی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ طہٰ کی آیت نمبر 124 اس کا تذکرہ یوں کرتی ہے: ’’اگر لوگوں نے میری نازل کی ہوئی ہدایات، اُصولوں وقوانین اور تعلیمات سے اعراض اور انحراف کیا تو میں ’’مَعِیْشَۃً ضَنْکًا‘‘ مسلط کردوں گا۔ ’’مَعِیْشَۃً ضَنْکًا‘‘ عربی میں ایسی معیشت کو کہتے ہیں جس میں آمدنی کے باوجود گزارہ مشکل ہوجائے۔ قرآن کے اس حکم کو پیش نظر اور مدنظر رکھ کر سوچا جاسکتا ہے کہ آج پوری دنیا میں خوراک کا مسئلہ ہے۔ ہر جگہ ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں انسان بھوک وافلاس اور خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ماہرین اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کررہے ہیں آئندہ سالوں میں تاریخ کا بدترین قحط پڑے گا اور ایسی جنگیں ہوں گی جس سے ملک اور نسلیں ختم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور دیگر بڑے ممالک نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی ہے اور زیرزمیں بڑے بڑے بنکر کے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق روسی صدر نے ممکنہ جنگ کے مقابلے کے لئے 12 ملین افراد کے لئے زیرزمین پناہ گاہیں تعمیر کروائی ہیں۔ اب آتے ہیں ان گمبھیر مسائل کے حل کی طرف! دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ مظلوم قوموں کو ان کے جائز حقوق دئیے جائیں۔ جن علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، ان کو آزادی دی جائے۔ سامراجی عزائم رکھنے والے ممالک تیسری دنیا کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کریں۔ معاشی بحران کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی واضح خامیوں کی وجہ سے دن بدن اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے اس کو ایک طرف کرکے اسلام کا عادلانہ معاشی نظام لایا جائے۔ اسلحے کی دوڑ پر پابندی عائد کی جائے۔ ایک جنگی طیارے پر جتنی لاگت آتی ہے اس سے غریبوں کے لئے کئی ہسپتال اور گھر بنائے جاسکتے ہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔ شرح سود ختم اور صحیح تجارت کو رواج دیا جائے۔ سامانِ تعیش میں نمایاں کمی کی جائے۔ دنیا کا حکمران طبقہ جتنی رقم اپنے تعیشات پر خرچ کرتا ہے، اس سے 50 کروڑ غریبوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کی جاسکتی ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے ناگزیر ہے کہ ارتکازِ دولت کا سسٹم یکسر ختم کرکے اس کی جگہ اسلام کا نظام زکوٰۃ، عشر، خیرات اور صدقات نافذ کیا جائے۔ جب یہ نظام مکمل طورپر نافذ تھا تو کوئی غریب تلاش کرنے سے بھی نہ ملتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ حکومت میں لوگ زکوٰۃ لئے پھرتے تھے اور کوئی وصول کرنے والا نہ ہوتا تھا۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اپنے اس قول میں سنجیدہ ہیں کہ ’’دنیا سے دہشت گردی کو ختم ہونا چاہیے‘‘ تو اس کے لئے ناانصافی کے خاتمے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ جی ایٹ ممالک متعدد بار کہہ چکے ہیں ’’دہشت گردی میں غربت کا عنصر بھی شامل ہے‘‘، لہٰذا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے غربت کا خاتمہ ناگزیر ہے لیکن ان ممالک کی اقتصادی ومعاشی، زرعی، ٹیکنالوجی اور دیگر پالیسیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے دن بدن غربت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ عالمی منڈی تک ان کی پہنچ میں اگر رعایت نہیں دے سکتیں تو کم ازکم رکاوٹ بھی نہ ڈالیں۔ دوسرا یہ کہ ترقی پذیر ممالک پر جو ان کے ایک کھرب ڈالر سے زائد کے قرضے ہیں، وہ قرضے یا کم ازکم ان کا سود ہی معاف کریں۔ تیسرا یہ کہ اپنی استحصالی اور خون آشام پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ اس وقت جنگوں میں جو اسلحہ استعمال ہورہا ہے، وہ انہی سرمایہ دار ممالک کا ہے۔ پہلے وہ جنگوں کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور پھر اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ ان ممالک نے یہ وطیرہ بنارکھا ہے پہلے وہ مسائل پیدا کرتے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک میں یورشیں اور شورشیں بپا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنا پر ان کے لئے برائے نام امداد او قرضوں کا اعلان کرتے ہیں۔اگر ترقی یافتہ ممالک امن وامان کا قیام چاہتے ہیں تو انہیں اپنی دوغلی پالیسیوں پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ برکس ممالک کو اپنے سربراہی اجلاس میں انسانی زندگی کے حقیقی مسائل سے صرف نظر کرنے کی بجائے ان کے حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی، تاکہ تنظیم کی افادیت اور ضرورت ثابت ہونے میں مدد ملتی اور علاقے کے عوام کے طرز بودوباش میں تبدیلی رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی، افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ سارا زور دہشت گردی پر ہی رہا ہے اور دہشت گردی سے بڑے مسئلے ڈسکس نہ ہوسکے۔


.
تازہ ترین