• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدارا دولت کےلیے کروڑوں لوگوں کی جان مت لیجئے۔ پاکستان میں تقریباًدو کروڑ لوگ یرقان کی مختلف اقسام کے مریض ہیں اور یہ تعداد دنیا میں کسی بھی ملک کی شرح کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتی ہے۔یرقان یا کالایرقان ہیپٹائٹس ایک ہی طرح کے مرض کے مختلف نام ہیں ۔یہ پانچ طرح کا مرض ہےاسکو ہیپٹائٹس اے،بی،سی،ڈی اور ای کے نام دیے گئے ہیں ۔ہیپاٹائیٹس بی اور سی جان لیوا ہیں۔بی کےلیے احتیاطی ویکسین دنیا میں موجود ہیں جبکہ ادویات کے ذریعہ اس کا اعلاج بھی ممکن ہے۔ ہیپٹائٹس سی کےلیے کوئی احتیاطی تدبیریا ویکسین موجود نہیں تاہم مرض کی تشخیص کے بعد علاج ممکن ہے۔اے،ڈی اور ای کھانے پینے سےلاحق ہوتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی اسی فیصد آبادی کو اس مرض میں مبتلا ہونے کا اندازہ ہی نہیں، تا ہم یہ اقسام جان لیوانہیں ہیں۔ ہیپٹائٹس بی اور سی انتقال خون کے ذریعہ فروغ پاتاہے۔ بعض اقسام تو ایسی بھی ہیں کہ مکئی کے بالوں سے بھی اعلاج ہے ۔ ہیپٹائٹس سی حجام کے دکان اور اس کے استرے یا قینچی کے ذریعہ سب سے زیادہ پھیلتاہے پھیپھڑوںمیں کینسر کی وجہ بھی بنتاہے۔اوراس کےزیادہ ترمریض خیبر پختونخوا،بلوچستان اور افغانستان میں پائےجاتےہیں۔خواتین میں ناک چھدوانے سےیہ بہت زیادہ پھیلتاہےجبکہ معمولی ہوٹلوں،چھپرہوٹلوں میں چھری کےغیر مناسب استعمال سےبھی اس کاہونا ملتاہے۔پاکستان کی طرح دنیا بھر میں گذشتہ 20برس سے زائد عرصہ قبل اس کی آگاہی اور ادویات کا استعمال شروع ہوچکاہے،جوادویات دو دھائی سے استعمال ہو رہی ہیں ان کےبرے اثرات بھی انسانی ساخت پر نمودار ہوتے رہے ہیں اور 90فی صد مریض ان اثرات کا علاج بھی کرواتےرہے ہیں تقریباً 3سال قبل کینڈا کی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی نےاپنی ریسرچ کے ذریعہ ایسی دوائی بنائی جسکے برےاثرات بہت ہی کم ہیں مگراس مرض کا خاتمہ ہو جاتاہے۔دنیا میںیرقان کے سب سے زیادہ مریض مصر میں 12فی صد تک موجود ہیں جبکہ پاکستان میں کل آبادی کا دس فی صد۔ اس مرض کےلیے جس کمپنی نے یہ دوائی تیارکی تھی اس کا بین الاقوامی قوانین کے حق تھا کہ وہ 20برس تک کسی دوسری کمپنی کو یہ نہ بنانے دی اور منہ مانگی قیمت بھی وصول کرتے۔امریکی محکمہ خوراک نے جب اس دوائی کی عام اجازت دی تو اسکی قیمت ایک ہزار ڈالر فی گولی رکھی تھی۔ امریکی صدربارک اوباما نے اس کمپنی سے درخواست کی کہ انسانیت کے نام پر اس دوائی کو بنانے کی عام اجازت دےدی جائے تاکہ دکھی انسانیت کا بھلا ہوجائے ۔ بین الاقوامی اداروں نے یہ بات تسلیم کرکے اس دوائی کو جنرک کر دیا ۔گویا ہر کوئی بنا سکتا ہے۔امریکہ میں جس کمپنی نے یہ دوائی تیار کی وہ پاکستان میں بھی ادویہ سازی کا کام کر رہی ہے یہ بھی ایک معمہ ہے کہ ۔۔اس کمپنی نے حکومت سے اس دوائی کو بنانے کی اجازت نہیں مانگی۔ امریکی کمپنی نے پاکستان اور مصر کے مریضوں کی حالت کا اندازہ لگاتےہوئے اس کی قیمت پاکستان کےلیے 20امریکی ڈالر اور مصر کےلیے 12امریکی ڈالر مقرر کردی ۔ وفاقی وزارت صحت کے مطابق اس وقت پاکستان میں 42کمپنیاں یہ دوائی بناناچاہتی ہیں۔مگراب تک کسی کو بھی ہماری حکومت نے میعاری تصور نہیں کیا جبکہ یہ کمپنیاں سیکڑوں ادویات بنا اور فروخت کر رہی ہیں ۔دنیا بھر میں یہ قانون موجودہے کہ اگر ہنگامی صورت حال پیدا ہو تو ادویہ سازی پر عائد پابندی اٹھائی جاتی ہے اور قانونی ضابطوں کو بعد میں گنجائش کے ساتھ لاگو کر دیا جاتا ہے۔ دنیا میں 91ممالک ایسے ہیں جہاں اس دوائی کو بنانے کی اجازت دی جاچکی ہے۔چندہفتےقبل قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ڈاگ ریگولیٹری اتھارٹی ایک خوبصورت کہانی کے ذریعہ ایسی کمپنی کو یہ دوائی امپورٹ کرنے کی اجازت کی توثیق کروا دی جو کافی عرصہ سے غیر اخلاقی کاروبار میں مصروف عمل ہے۔ یہ دوائی عام میڈیکل اسٹور پر فروخت نہیں ہوسکتی۔صرف مریض باہر سے منگوا سکتا ہے ایک مخصوص کمپنی نے امریکی کمپنی کے ساتھ یہ دوائی پاکستان کےلیے امپورٹ کرنے کا معاہدہ کیا۔جبکہ اسی امریکی کمپنی کی پاکستان میں شاخ موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کمپنی نے تقریباً 15ہزار مریضوں کےلیے یہ دوائی امپورٹ کی اور دو ہزار روپے فی گولی قیمت وصول کی گئی،امریکی کمپنی نے پاکستان اور مصر کےلیے الگ الگ رنگ کی گولی بنانا شروع کر رکھی اور پاکستان میں یہ پیلے رنگ کی گولی مل رہی ہے جبکہ ساری دنیا میں اس کا رنگ سفید ہے۔ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ چونکہ پاکستان سے یہ دوائی باہرکی دنیا میں واپس بھیجی جا رہی تھی۔ دنیا بھر اس دوائی کی جنرک بنانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مریضوں کی موت کی قیمت پر ادویہ ساز کمپنی کو دولت اکٹھا کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ہمارے ہاں تقریباً 3ہزار مریض اس کے ہاتھوں روزانہ جان کھو دیتے ہیں اور اب بھی بہت بڑی تعداد اس کی قیمت ادا کرنے سے عاری ہے جبکہ بیت المال اور محکمہ زکوٰۃ ایسے مریضوں کی اعانت بھی کر رہے ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ایسے افسران بھی موجود ہیں جو قبل از گرفتاری کروا چکے ہیں 21ویں گریڈ کی سروس پر نچلے گریڈ کے افسران براجمان ہیں۔پاکستان کے کروڑوں مریض دو لاکھ روپے اپنے علاج پر خرچ نہیں کرسکتے جبکہ اب یہ دوائی 1186 روپےفی گولی موجود ہے۔ہمارے دیہاتوں میںکیسے مریض آن لائن خودکو رجسٹر کریںگےاورکیسے ان کا ڈیٹا اکٹھا ہوگا۔ دو نمبری کرنے والا اس کا راستہ نکال لیں گے جیسے پہلے نکلتا رہا ہے۔وزیرمملکت سائرہ افضل جتنی بھی کوشش کریں معاملات شفاف تب تک نہ ہوںگےجب تک دیگر کمپنیوں کو یہاں پاکستان میں دوائی بنانے کی اجازت نہ دی جائےگی۔یہ دوائی 350/300روپے فی گولی تک بن سکتی ہے اور جبکہ تین درجن سے زائد کمپنیاں بنانا چاہتی ہیں تو یہ کیوں اجارہ داری قائم رکھ کر اپنے مریضوں کو مشکل میں ڈال رہے ہیں اور ایک کمپنی کو اجازت دے رہے ہیں کہ کروڑوں روپے لوگوں کی موت اور زندگی کی جنگ کی کشمکش میں کمائو۔
تازہ ترین