• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدانتظامی، مالیاتی عدم استحکام، شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل، سڑکیں کھنڈر بن گئیں

کراچی(طاہرعزیز۔۔۔اسٹاف رپورٹر) محکمہ بلدیات، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کی عدم دلچسپی، بدانتظامی ، مالیاتی عدم استحکام اور قانونی پیچیدگیوں نے شہر کو کچرے کا ڈھیر اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ نے کھنڈربنادیا سابق سٹی ناظمین نعمت اللہ خاں سے لے کر سیدمصطفیٰ کمال کے دور فروری 2010تک موجودہ وسائل (گاڑیوں اور افرادی قوت) کے ساتھ ہی شہر صاف ہورہا تھا کوئی سڑک ٹوٹی ہوئی نظر نہیں آتی تھی موجودہ بلدیاتی نمائندوں کو فنکشل ہوئے دوماہ ہوگئے لیکن شہر کی صورتحال بدلنا تودور کی بات پہلے سے موجود کچرے کے ڈھیروں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں کئی کئی فٹ گڑھوں کی شکل اختیار کرگئی ہیں ڈپٹی میئر حلف اٹھانے کے بعد اب تک شہر کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کرسکے ہیں انہوں نے فنڈز کی کمی کا بہانہ بنانا شروع کردیا ہے ڈی ایم سیز چیئرمین دوروں کی تصویریں اور خبریں روز چھپواتے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے شہر کے تمام گنجان آباد علاقوں لانڈھی، قائدآباد، کورنگی، ملیر ، شاہ فیصل،محمودآباد ، اعظم بستی، منظورکالونی، گلستان جوہر، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد، نشترروڈ، رنچھوڑ لائن، گارڈن، صدر ، اولڈسٹی ایریا، بہارکالونی آگرہ تاج کالونی سمیت لیاری کے دیگر علاقے، شیرشاہ ، ماری پور ، بلدیہ ، اورنگی ، کیماڑی وغیرہ کے علاقوں میں کچراکنڈیاں روز صاف ہورہی ہیں نہ سڑکوں پر موجود کچرے کے ڈھیروں کو اٹھایاجاتا ہے صرف 4 ہزار ٹن کے قریب کچرا روزانہ اٹھاکرلینڈ فل سائٹ تک پہنچایاجاتا ہے بقیہ 8 ہزار ٹن کچرے کو ندی نالوں کھلے پلاٹوں، کھیل کے میدانوں ، پارکوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا پھر یہ سڑکوں پر جمع رہتا ہے اسے ڈی ایم سیز کا عملہ بعض مقامات پر جلا بھی دیتا ہے اس طرح شہر میں موجود کچرے کی سیکڑوں کچرا کنڈیوں اور ڈھیروں سے اٹھنے والے تعفن نے بیماریاں پھیلانے کے ساتھ شہریوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے اسی صورتحال کے باعث حال ہی میں 224ملکوں کے ورلڈ سروے میں گندے ترین شہروں میں کراچی کا چھٹا نمبر آیا ہے جو صاحب اقتدار واختیار کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں صفائی کا کام ٹھپ ہونے کی وجہ 2014میں سندھ حکومت کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا قیام بھی ہے جس میں تمام اختیارات کے ایم سی اور ڈی ایم سیز سے لے کر اس بورڈ کو منتقل کردیئے گئے، جس کے باعث عملے نے دلچسپی لینا چھوڑ دی لیکن یہ بورڈبھی آج تک کام شروع  نہیں کرسکاہےدوسری وجہ 2010کے بعد ہر تین اور چار مہینے بعد کے ایم سی ، ڈی ایم سیز میں ایڈمنسٹریٹر اور میونسپل کمشنرز کی تعیناں ہیں اس سے حکمرانوں کے اپنے مقاصد تو پورے ہو ئے لیکن شہر کا بیڑہ غرق ہوتا رہا سابق وموجودہ وزیراعلیٰ اور وزیربلدیات بھی کئی بار شہر کو صاف کرنے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر اور صورتحال مزید خراب ہوگئی ڈی ایم سیز کی گاڑیاں ملیر اور لیاری ندی میں کچرا پھینک رہی ہیں پوچھنے اور معلوم کرنے پر کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا بہتر ہے کہ تمام ڈی ایم سیز کی گاڑیوں پر الگ الگ رنگ کردیئے جائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون ندی میں کچرا پھینک رہا ہے شہر میں کلفٹن اور گورنروزیراعلیٰ ہاؤس کے اطراف سڑکوں کی ازسرنو کارپٹنگ کردی گئی ہےلیکن بقیہ پورے شہر کی تمام بڑی اور چھوٹی شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں گہرے گڑھے پڑچکے ہیں ملیر سے اسٹیل مل تک نیشنل ہائی وے پر کئی کئی فٹ گہرے گڑھے مہینوں سے موجود ہیں گڑھوں کی وجہ سے روزحادثات معمول ہیں لیکن اب تک کے ایم سی اور ڈی ایم سیز نے ان سڑکوں کی مرمت کاآغاز نہیں کیا ہے سیوریج ابلنے کی شکایات بھی بتدریج موجود ہیںپشتوکی مشہور کہاوت ’’خپل بندوبست‘‘  یعنی اپنی مدد آپ کے تحت شہر چل رہا ہے وفاقی و صوبائی حکومت اور نمائندوں سے لوگ پہلے ہی مایوس تھے لیکن بلدیاتی نمائندوں کے آنے سے بھی انہیں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہواہے۔
تازہ ترین