• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت نامہ:عمران خان جمہوریت پسند ہوتے تو کہتے مارشل لاء کی مزاحمت کرینگے

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)  تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کھلم کھلا اشارہ دیدیا ہے کہ ان کی نئی مہم جوئی کے نتیجے میں اگر ملک میں مارشل لاءنافذ ہوگیا تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ہونگے اس کا  ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انکی جدوجہد کے نتیجے میں اگر مارشل لاء نافذ ہوجائے تو انہیں اس سے تعرض نہیں ہوگا وہ اپنا مقدمہ درست رکھنے کے لئے ریکارڈ پر لارہے ہیں کہ کل کلاں انہیں اس کے لئے ذمہ دار قرار نہ دیا جائے۔تحریک انصاف کے  سربراہ کو اگر جمہوریت سے  لگائو ہوتا تو انہیں سیدھے لفظوں میں کہنا چاہئے تھا کہ ملک میں ا گر نظام کو تلپٹ کرنے کی کوشش کی گئی اور مارشل لاء نافذ کرنے کا کوئی خدشہ پیدا ہوا تو وہ اس کی مزاحمت کرینگے  دونومبر کا ڈی ڈے قریب آنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی بے چینی میں لگاتار اضافہ ہورہاہے،  انہیں اندازہ ہی نہیں کہ جو کام کرنے جارہے ہیں اس کےنتیجے میں عوام کو کس قدر شدید گزند پہنچے گی  اسے  قرار واقعی طور پر یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے راستےمسدود کرنے اور حکومتی نظام کو منجمد کرنے کے لئے جس افرادی قوت کی ضرورت ہوگی وہ  میسر نہیں آسکے گی یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا  میں اپنے وزراء سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے حصے کے افراد اسلام آباد  لائیں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اس ابھرتے منظر کودیکھ کر عازم برطانیہ ہورہے ہیں جبکہ وزرا اور پارٹی کے عہدیداروں پر سراسیمگی طاری ہے۔  2014ء کے دھرنے سے پہلے عمران خان نے اعلان کیاتھا کہ وہ دس لاکھ افراد کے جلو میں اسلام آباد آئیں گے مگر  وہ اور مولانا ڈاکٹر  طاہرالقادری جب دو سمتوں سے الگ الگ اسلام آباد میں داخل ہوکر یکجا آئے تو ان کے شرکا  کی تعداد ان کے  دعوئوں کا بیسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ خان نے اس مرتبہ پھر یہ بات  دہرائی  ہےکہ دو نومبر کو اسلام آباد پر انسانوں کا سمندر موجزن ہوگا اور دس لاکھ افراد اس روز  وفاقی دارالحکومت پر یورش کرینگے ۔ خان نے ر ائے ونڈ  اڈہ پلاٹ پر بھی ایسے ہی اجتماع سے خطاب کیاتھا اور یہ اعلان کیاتھا کہ وہ اب حکومت نہیں چلنے دیں گے اور اسلام آباد بند کردیں گے ان کا بیان ناقابل تردید ریکارڈ بن چکا ہے جس میں ملکی آئین و قانون سے کھلی بغاوت کے ارتکاب کا اعلان  تھاانہیں یقیناً کسی قانون دان نے سمجھایا ہوگا کہ وہ اب  دو نومبر کی اپنی کارروائی کے لئے دھرنے کی ترکیب استعمال کررہے ہیں اسی دوران وہ تحقیقات کے لفظ سے بھی برآت اختیار کررہے ہیں انہوںنے تلاشی کے لفظ کی اختراع کی ہے  جس سے یہ تاثر ابھرتاہے جیسے سینما ہال میں داخل ہونے والے فلم بینوں کی جس طور پر تلاشی لی جاتی ہے  خان بھی اس طرح کی تلاشی چاہتے ہیں۔ انہوںنے اپنی سرگرمیوں، لفظوں کے چنائو اور اپنی اضطراری کیفیت سے ثابت کیاہے کہ وہ سب کچھ ہیں سیاستدان نہیں ہیں  انہیں اندازہ ہی نہیں کہ  جو کام کرنے جارہے  ہیں اس کےنتیجے میں عوام کو کس قدر شدید گزند پہنچے گی  ان کو خوف  ہے کہ موجودہ حکومت بخیر و خوبی 2018ء کے پل صراط پر پہنچ گئی تو وہ اسے زیادہ تردد کے بغیر عبور کرلے گی جبکہ خان اور ان کی پارٹی کے لئے یہ پل ناقابل تسخیر ہوگا ۔
تازہ ترین