• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیری عوام ہمارے ساتھ نہیںبھارتی صحافی کا مودی کو خط

سرینگر (جنگ نیوز) بھارتی صحافی سنتوش بھارتیہ نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک کھلا خط ʼرائزنگ کشمیر میں شائع کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ʼاگرچہ کشمیر کی سرزمین تو ہمارے ساتھ ہے مگر کشمیری عوام ہمارے ساتھ نہیں۔1952 کے بعد پیدا ہونے والی ایک پوری نسل نے جمہوریت کا ایک دن بھی نہیں دیکھا اور اسے جمہوریت کا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔انہوں نے بس فوج، نیم فوجی دستے، گولیاں، گنیں، لاشیں، اجتماعی قبریں، گمشدہ افراد، تشدد اور اجتماعی زیادتیوں کو ہی دیکھا ہے۔اس صحافی نے مقبوضہ کشمیر کے چار روزہ دورے کے حقائق اس خط میں بیان کیے ہیں، جیسے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال، کشمیری عوام کا غصہ اور بھارت خصوصاً مودیحکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو غلط طریقے سے سنبھالنا وغیرہ شامل ہیں۔اس کھلے خط کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔میں یہ حقیقت متعارف کرانا چاہتا ہوں کہ بھارتی نظام کے خلاف لوگوں کے اندر تکلیف دہ جارحیت موجود ہے چاہے وہ 80سالہ شخص ہو یا 6 سالہ بچہ۔یہ جارحیت اور تلخی نامنظوری کے احساس کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کا درد اور جارحیت نے اب ایسی انتہاپسندی کا روپ لے لیا ہے کہ اب ہاتھوں میں پتھر لے کر کھڑتے ہوتے ہیں اور اتنے بڑے نظام کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، کوئی بھی نتیجہ انہیں روک نہیں سکتا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ صورتحال ہمیں تباہ کن ʼقتل عام کی صورتحال کی جانب لے جاسکتی ہے۔وہ کشمیری جو ہاتھ میں پتھر نہ اٹھاتا ہو، اپنے دل میں ضرور پتھر رکھتا ہے۔ اس تحریک نے بڑے پیمانے کی عوامی تحریک کا روپ بالکل ویسے ہی لیا ہے جیسے 1942 کی تحریک یا جے پی موومنٹ جس میں لیڈروں سے زیادہ عوام کا ہاتھ تھا۔جن لوگوں نے 2014 کے انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے، آج ان میں سے کوئی بھی اسی حکومت کی حمایت میں ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ کوئی بھی کشمیریوں کو ہم پر پتھراؤ کے لیے متاثر نہیں کرتا، اس کا کریڈت ہمارے اپنے سسٹم کو جاتا ہے۔انہوں نے پاکستان پر کشمیریوں کو پتھرائو پر اکسانے کے الزام کو بھی رد کیا اور اسے ایک مذاق قرار دیا اور کہا کہ اس بات پر کشمیری بھی ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ آپ کو کشمیر کے بارے میں جو معلومات اور خبریں موصول ہوتی ہیں وہ غیر واضح اور سچی نہیں ہوتیں کیونکہ انہیں حکومتی عہدیداران مسخ کردیتے ہیں۔سرکاری عہدیداران کا پیش کردہ نکتہ نظر کشمیری کی حقیقی صورتحال بیان نہیں کرتا، مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی تیکنیک یا طریق ہو جس سے آپ براہ راست کشمیریوں کی بات سن سکیں اور رابطہ کرسکیں تو آپ انہیں کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔کشمیری ان ٹی سی چینیلز کے ناموں کا حوالہ دیتے ہیں جو ملک میں فرقہ واریت کے پھیلاؤ اور مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ میرے کچھ صحافی ساتھی اراکین پارلیمان کی پٹی آنکھوں پر چڑھا کر صحافی کا حقیقی کردار فراموش کردیتے ہیں اور ہمارے ملک کے اتحاد اور سالمیت سے کھیلنے سے ہچکچاتے نہیں۔ہمارے فوجی عہدیداران اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ذہنوں میں ایک خطرناک غلط فہمی یہ پروان چڑھ رہی ہے کہ اگر کوئی کشمیر کے موجودہ نظام کے خالف آواز بلند کرتا ہے تو اسے دبا کو مار دینا چاہئے، مگر یہ ایک انتہائی غلط پالیسی ہے۔جہاں تک میرا فہم ہے، یہاں کوئی ایسی چیز نہیں جسے ʼ علیحدگی پسند تحریک کہا جاسکے، درحقیقت یہ کشمیر کے ہر عام شہری کا انقلاب ہے جہاں اسی سال کے شخص سے لے کر چھ سال کی عمر تک کے بچے تک آزادی کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ گزشتہ 70 سال کے دوران ہم نے دانستہ اور سنگین غلطیاں کی ہیں جنھوں نے کشمیری عوام کو ہمارے خلاف کردیا ہے۔انہوں نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس دن سے پہلے جب آپ وزیراعظم بنے تھے، کسی بھی سابقہ حکومت نے کشمیریوں کو یقین دہانی نہیں کرائی تھی کہ کشمیر بھارت کا ویسا ہی حصہ ہے جیسے دیگر ریاستیں۔کشمیری عوام سوچتے ہیں کہ آخر کیوں وہ ایک نارمل زندگی کے حقدار نہیں جیسے بھارت کی دیگر ریاستوں کے باسیوں کو حاصل ہے، کیا وہ اپنی زندگیاں گنوں، گولیوں، پیلیٹ اور روزانہ کے قتل عام کے خوف میں گزاریں گے؟۔
تازہ ترین