• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کا باپ بھی جمہوریت غیرمستحکم نہیں کرسکتا،عمران سیدھا کہیں مرضی کا عدالتی فیصلہ چاہتے ہیں، فضل الرحمٰن

لاہور(آئی این پی، نمائندہ جنگ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو بچانا جرم کی بات نہیں، کسی کا باپ بھی جمہوریت کو غیر مستحکم نہیں کرسکتا، اسلام آباد بند نہیں ہو سکتا، پاناما لیکس کا معاملہ عدالت جانے کے بعد دھرنے کا اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں رہا،پاناما معاملے کا فیصلہ جلسوں اور سڑکوں پر نہیں سپریم کورٹ میں ہوگا، پاکستان میں مارشل لا لگے گا نہ تصادم ہوگا، عمران خان سیدھا کہیں مرضی کا عدالتی فیصلہ چاہتے ہیں، عمران خان کو سمجھا جائے کیا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ مارشل لاءآیا تو اسے خوش آمدید کہوں گا، سڑکوں پر جہاں یو ٹرن نہ ہو عمران خان کی تصویر لگا دیں لوگ سمجھ جائینگے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے ملاقات اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ انتشارکی سیاست کرنے والے پاکستان کی جگ ہنسائی چاہتے ہیں۔ قوم کسی تماشے کا حصہ نہیں بنے گی، باشعور عوام ترقی دشمنوں کے چہرے پہچان چکے ہیں، منفی سیاست کرنے والوں کا ہد ف سی پیک منصوبہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں وفدنے لاہور میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی او رخصوصاً پی ٹی آئی کی طرف سے دھرنے کی کال بارے تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں رہنمائوں نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے کے باوجود احتجاج کی کال کوبلا جواز اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا کہ نظام کی مضبوطی کیلئے اکٹھے چلیں گے ۔وزیر اعلی ٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد بند کرنے والے تیز رفتار ترقی کے سفر کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔ منفی سیاست کے علمبردار سی پیک کو بند کراکے 18 کروڑ عوام کی خوشیاں چھیننے کے درپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بند کر کے انتشار کی سیاست کرنیوالے پھر تماشہ لگا کر پاکستان کی جگ ہنسائی چاہتے ہیں لیکن باشعورعوام ترقی کے دشمنوں کے چہرے پہچان چکے ہیں اور قوم ایسے کسی تماشے کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس موقع پرمولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاناما کیس کی سماعت کے بعد احتجاج کا کوئی اخلاقی وسیاسی جواز نہیں جبکہ احتجاج مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے عدالت پردبا ئوڈالنے کے زمرے میں آتا ہے۔انہوں نے کہاکہ عمران خان اپنی پے درپے شکست کا انتقام غریب عوام سے نہ لیں۔قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ موجودہ حالات 12اکتوبر 1999جیسے نہیں۔ بساط لپیٹنے کی باتیں خبر کی حد تک تو ہوسکتی ہیں، مگر زمینی حقائق ایسے نہیں ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کیس عدالت میں ہے۔ سڑکوں پر آنے کا مطلب عدالت پر دبا ئو ڈالنے کے مترادف ہے۔ انکا کہنا تھا کہ حکومت نہیں، پی ٹی آئی والے بند گلی میں داخل ہو گئے ہیں۔ دھرنے والوں کو ٹھنڈی زمین درکار ہوتی ہے، تاکہ ان کے تلوے بھی ٹھنڈے رہیں۔ زمین گرم ہو تو حالات انہیں سوٹ نہیں کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کے بعد لاہور میں جمعیت علماء پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس موقع پر جے یو پی کے سیکرٹری جنرل شاہ اویس نورانی ، مولانا امجد خان اورقاری زوار بہادر بھی موجود تھے۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک منتخب وزیر اعظم ہیں اور پارلیمنٹ نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا غیر آئینی غیر جمہوری ہوگا،کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،ملک میں انتشار پھیلانے والے کے لئے باہر سے ایجنڈا لانے والے کے خلاف کردار ادا کریں گے،عمران خان میں اگر اخلاقی جرات ہے تو وہ کہیں کہ میں ملک کی سب سے بڑی عدالت پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر پر کشمیری تنظیموں کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے آئندہ ہفتے اس کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلا ف پاناما لیکس کے بارے میں کیس کی سماعت عدالت میں شروع ہو چکی ہے عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی اسے کھلے دل سے قبول کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جس کے پاس کوئی عوامی منشور نہیں ہوتا اسےدوسرے سب مخالف چور نظر آتے ہیں ،شیخ رشید کا بھی یہی مسئلہ ہے،میں اپنی چادر کے مطابق سیاست کرتا ہوں، دوسروں کی طرح وہ بات نہیں کہتا جو میرے اختیار میں نہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت ہماری منزل نہیں ہوتی لیکن اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے حکومت کو اس سفر کا حصہ سمجھتے یں، ہم ذمہ دار اور نظریاتی لوگ ہیں۔ حکومتی معاملات میں حکمرانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور انہیں بھٹکنے سے بچاتے ہیں جس طرح حقوق نسواں بل میں حکومت کو روکا۔
تازہ ترین