• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آجکل ملکی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ سب سے پہلے ایم کیو ایم کی دَھجیاں بکھر گئی ہیں۔ خدا خدا کرکے ہمیں الطاف حسین کی روزانہ گھنٹوں کی بد زبانی سے نجات ملی، وہ باز نہیں آئے تو عدلیہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُن کا منہ بند کردیا۔ ان کی تقریروں سے ہمارے صبر کا امتحان لیا جا رہا تھا اب ان کی جگہ فاروق ستار نے لے لی ہے۔ ان کو بھی فالتو باتیں کرنے کا بہت شوق ہے اور یہ بھی مائیک سے چپک جاتے ہیں۔ الطاف اور اس کے حواریوں نے جتنا نقصان مہاجروں کو پہنچایا ہے اس کا کفّارہ بہت سخت و تکلیف دہ ہوگا۔ ان لوگوں نے لفظ مہاجر کو گالی میں بدل دیا۔ دو نسلوں کو جاہل، بھتہ خور اور ٹارگٹ کِلر بنا دیا۔ حالانکہ تقسیم کے بعد مہاجر نہایت تعلیم یافتہ، مہذب مانے جاتے تھے۔ اعلیٰ عہدوں پر تھے، محب وطن تھے۔ اس ایک جاہل شخص نے پوری نسل کو تباہ کردیا۔ فاروق ستار، رئوف صدیقی وغیرہ کو یہ سنہری موقع ملا ہے کہ پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرکے نئی نسل کو راہ راست پر لانے میں اپنا رول ادا کریں۔ جہاں تک الطاف حسین کا معاملہ ہے تو آپ نے دیکھا منی لانڈرنگ کیس کتنی آسانی سے ختم کردیا گیا ہے، کوئی اور شخص ہوتا تو سال بھر پہلے سات سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا ہوتا۔ مجھے سندھ کے ایک نہایت معتبر اور اعلیٰ سیاسی شخصیت نے بتلایا تھا کہ ایک مرتبہ جب وہ وزیر تھے تو انھوں نے ایم کیو ایم پر ان کی غیرقانونی حرکات کی بنا پر کچھ سختی کی۔ انھیں اس قدر تعجب ہوا کہ چند دن بعد ہی ایک غیر ملکی سفارتکار ان کے پاس آیا اور ایم کیو ایم کی سفارش کی کہ ان پر نرم ہاتھ رکھیں۔ اس کے دو تین دن بعد ہی ایک اور ملک کاسفارتکار آیا اور اس نے بھی یہی سفارش کی۔ ان کو اس قدر تعجب ہوا کہ یہ شخص ہمارے ملک میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور اُن کا چہیتا ہے۔
دوسری سیاسی سرگرمیوں کا ذکر ضروری ہے۔ کراچی کے پرانے ناظم مصطفی کمال نے اپنی نئی پارٹی پاک سرزمین پارٹی کے نام سے بنا لی ہے، ایم کیو ایم کے چند ساتھی ان سے مل گئے ہیں باقی اگرچہ الطاف سے نالاں ہیں مگر خوف سے کھل کر ان کے ساتھ نہیں مل رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر الطاف دوباراقتدار میں آگیا تو ان کا برا حشر کروائے گا اور کئی لیڈر اندرونی طور پر اب بھی الطاف کے ساتھ ہیں اور دکھاوے کے طور پر ایم کیو ایم پاکستان کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پچھلے بیس سال سے الطاف کے حکم پر، اس کی انگلیوں پر ناچتے رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ الطاف کو بھارت اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے اس لئے وہ خوفزدہ ہیں۔ الطاف کے حواریوں نے مبینہ طور پرکتنے لوگ قتل کردیئے اور کوئی پوچھنے والا نہیںہے۔ یہ پیارا ملک مشکلات کا شکار ہے۔ الطاف حسین سے جان چھوٹی تو عمران خان نے وہ خلا پُر کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ لاتعداد لوگ ان کی روز روز کی الزام تراشیوں سے پریشان ہوگئے ہیں، انھیں بار بار باتیں دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ یہ خیام خیالی کا شکار ہیں کہ ان کے دھرنوں کی وجہ سے نواز شریف مستعفی ہوجا ئیںگے یا ملک میں امن و امان کا فقدان پیدا کرینگے تو حکومت ختم ہوجائے گی۔ اگر ان کو تاریخ کا کچھ مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو تو ان کو جان لینا چاہئے کہ جب ڈکٹیٹر آتا ہے تو وہ ہمیشہ اَپنے وفادار ساتھ لاتا ہے۔ ان کو اعلیٰ عہدوں پر لگاتا ہےوہ شاہ سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں تاکہ شاہ کی خوشنودی حاصل کرلیں۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ میں نے خود جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں یہ حالات دیکھے ہیں۔
مجھے عمران خان کی سیاست پر بہت تعجب ہے اور میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ ان کی (غلط) بات نہیں مانتی تو ان کو چاہئے کہ اپنے صوبے پر پوری توجہ دیں۔ پشاور میں روز قتل و غارتگری کے واقعات ہورہے ہیں اس لعنت سے صوبہ کو پاک کریں اور 2018 کے الیکشن کی تیاری کریں۔ مخالفین کو گالیاں یا بُرا بھلا کہنے سے آپ کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ آپ کوعوام کے دل جیتنا ہیں ابھی جو نوجوان طبقہ آپ کے پیچھے دوڑتا ہے وہ ووٹ ڈالنے نہیں آئینگے۔ آپ آکسفورڈ کے تعلیمیافتہ ہو۔ اپنی سابقہ بیگم کی وجہ سے اعلیٰ سوسائٹی میں اُٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہے آپ اپنی تقریروں میں تمیز کا دامن نہ چھوڑیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ پر شیخ رشید کی صحبت کا بہت اثر پڑا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف تو ہندوستان نے سرحدوں پر بدمعاشی و جارحیت جاری رکھی ہے اور دوسرے جانب سیاست داں ملک کی فضا کو مکدّر کررہے ہیں۔ اُدھر فوج دہشتگردوں کے خلاف عمل پیرا ہے اِدھر سیاست دان ملکی فضا کو گندہ کئے ہوئے ہیں۔ کراچی کے حالات ابھی بھی قابومیں نہیں آئے ہیں۔ عمران خان نے ڈی چوک پر دھرنے میں بہت کچھ کھو دیا۔ اس وقت ان کے پاس بارگیننگ کی خاصی اچھی پوزیشن تھی۔ کچھ لے لیتے اور پھر اگلے الیکشن میں سکون سے اور پوری تیاری سے حصّہ لیتے۔ اس وقت جو حالات ہیں اس میں آپ کی پارٹی کی خاطر خواہ اکثریت کے مواقع صفر کے برابر ہیں۔ آپ نے دوسال فالتو چیزوں میں ضائع کردیئے ہیں۔
ہندوستان کی جارحیت کے بارے میںآرمی چیف اور فوج کا ردّ ِ عمل بہت مناسب ہے اگر وہ گولے پھینکتے ہیں تو ہم بھی پھینکتے ہیں۔ ہندوستان کا ہمیشہ یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب بھی ان کے ہاں الیکشن ہوتے ہیں، کسی صوبے میں ہی سہی، وہ پاکستان کے خلاف جارحانہ باتیں اور اقدام کرکے مذہبی جذبات بھڑکا کر ووٹ جیتنا چاہتے ہیں۔ چند ہفتوں میں جب یہ معاملہ گزر جائے گا تو پھر وہ دوستی کے گانے سنانے لگیں گے۔
بلوچستان کے حالات پہلے سے بہتر ہوگئے ہیں مگر امن و امان کی حالت ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت کو ان بے روزگار لوگوں کو ملازمتیں دلانا اوّلین ترجیح ہونا چاہئے۔ گوادر میں جتنی بھی انڈسٹری لگے اس میں مقامی لوگوں کو لازمی ترجیح دینا چاہئے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری میں کے پی، بلوچستان اور سندھ کے تحفظات کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہئے۔ فوج، ایئرفورس اور بحریہ میں ان کے نوجوانوں کو ترجیحی طور پر ملازمتیں دینا چاہئیں۔ آرمی نے اس سلسلہ میں کافی قابل تحسین اقدامات کئے ہیں۔
مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت کی کارکردگی اور حکمرانوں کا رویّہ نہایت سوال طلب ہے۔ ہم نے بس ٹیکس بڑھانا اور غریب کا تیل نکالنا اور قرض لینے کو قومی پالیسی بنا لیا ہے، ہم قرض لے کر خوشیاں مناتے ہیں اور اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی پر فخر کرتے ہیں۔ اس وقت بے روزگاری، مہنگائی عروج پر ہے، اسپتالوں کی حالت زار قابل شرمندگی ہے۔ فلاحی اسپتال کے لئے جگہ نہیں دی جاتی حالانکہ ہم نے پیشکش کی کہ معاہدے میں لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہم وعدہ کے برخلاف علاج کی مفت سہولتیں نہ دیں تو معاہدہ منسوخ کردیا جائے اور زمین واپس لے لی جائے۔ ملک میں تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی رینکنگ میں صرف کامسیٹس 601 نمبر پر ہے۔ ایک بھی یونیورسٹی 500 میں موجود نہیںہے جبکہ سنگاپور جیسے چھوٹے ملک کی دو یونیورسٹیاں 12 ویں اور 13 ویں نمبر پر ہیں۔
میں نے چند ماہ پیشتر ایک اعلیٰ یونیورسٹی کا پروپوزل (تجویز) میاں صاحب کے ایک رفیق کار کو (جو 2025 تک کی منصوبہ بندی کا مصمّم ارادہ رکھے ہوئے ہیں) بھجوایا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ اپنے وقت میں بہت اچھا سلوک کیا تھا اور مدد کی تھی مگر دعوئوں کے باوجود اتنے اچھے پروپوزل کی رسید کی اطلاع بھی نہ دی۔ بداخلاقی کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے۔
عوام سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے اپنے ووٹ کے تقدس کا خیال رکھیں چند کوڑیوں میں غلط لوگوں کو حکومت کرنے کا موقع نہ دیں۔ آپ نے پچھلی اور اس حکومت کی کارکردگی دیکھ لی ہے، عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ لوڈ شیڈنگ اسی طرح جاری ہے اور سیلاب کی تباہ کاریاں اُسی طرح ہر سال ہوتی ہیں، اس سلسلے میںکوئی کارآمد اقدام نہیں اُٹھایا گیا ہے۔ عوام کی حالت قابل زار ہے رشوت ستانی، چوری، بے ایمانی اور ملاوٹ عام ہے۔ اللہ کا خوف کریں کہ جب وہ پکڑتا ہے تو اس کی گرفت بہت دردناک ہوتی ہے۔


.
تازہ ترین