• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانے زمانے کے کئی بادشاہ درندوں کو آپس میں لڑانے کا شوق رکھتے تھے ۔ یہ بادشاہ شیر اور چیتوں کی لڑائی کراتے۔ کبھی شیر کو ہاتھی یا گینڈے سے بھی لڑا دیتے اور گینڈے کے سینگ سے شیر کی درگت بنتے دیکھ کر خوش ہوا کرتے ۔ ایک زمانے میں نصیر الدین حیدر لکھنو کا نواب تھا ۔ اس کے پاس ایک ایسا خونخوار گھوڑا تھا جو شیر سے لڑائی جیت جاتا تھا ۔ ایک دفعہ نواب صاحب نے اس گھوڑے کے مقابلے پر تین بھینسے چھوڑ دیئے لیکن گھوڑا ان بھینسوں پر بھی حاوی ہو گیا ۔جہاں جہاں حکمران شیر، چیتوں، ہاتھیوں اور گینڈوں کو آپس میں لڑاتے تھے وہاں کے عام لوگوں نے مرغے، بٹیر اور تیتر لڑانے کے شوق پال لئے۔ ہمارے ہاں یہ شوق ابھی تک موجود ہے اور لڑنے والے اکثر مرغوں، بٹیروں اور تیتروں کو بڑے فخر سے شیرو، رستم اور مولا جٹ کے نام دیئے جاتے ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں بھی آپ کو ایسے کئی مرغے، بٹیر اور تیتر نظر آئیں گے جنہیں شیر، چیتا، رستم، سہراب، وطن کی شان ، ملت کی آن اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے ۔ یہ مرغے، بٹیر اور تیتر جب ایک دوسرے کو للکارتے ہیں اور ایک دوسرے کو نوچتے ہیں تو ارد گرد بیٹھے ہوئے تماشائی زور زور سے شاباش شاباش، زبردست زبردست، واہ واہ اور چھا گیا کے نعرے لگاتے ہیں لیکن انہیں آپس میں لڑانے والے کہیں دور بیٹھ کر ٹی وی اسکرینوں پر لڑائی کا مزا لیتے ہیں ۔ سیاسی لڑائیوں میں استعمال ہونے والے اکثر مرغوں، بٹیروں اور تیتروں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔جو لڑنے کے قابل نہیں رہتا وہ لڑا ئی کے میدان میں آنے سے گریز کرتا ہے اور یہ دعوے شروع کر دیتا ہے وہ ایسی لڑائی میں شامل نہیں ہو گا جس سے جمہوریت خطرے میں پڑ جائے۔ اس قسم کی بہانے بازیاں کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ لڑائی کا فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ کسی اور نے کرنا ہے ۔ شاید اسی لئے پاکستانی سیاست میں ڈگڈگی کا ذکر بھی سنائی دینے لگا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈگڈگی کا ذکر کرنے والوں کو بذات خود بھی ڈگڈگی بجانے والوں کی صحبت سے کافی فائدہ حاصل ہو چکا ہے لیکن آج کل انہیں ڈگڈگی بہت بری لگتی ہے کیونکہ ڈگڈگی کی تال پر ان سے بہت اچھا ناچنے والے میدان میں آ چکے ہیں ۔ قوم کی مسیحائی کے یہ دعویدار خود ڈگڈگی بجائیں تو ٹھیک، دوسروں کو نچوائیں تو ٹھیک لیکن کوئی ان کے مقابلے پر ڈگڈگی بجانی شروع کر دے تو وہ بہت برا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پاکستان کی بقاء کی جنگ نہیں بلکہ کچھ صاحبان اختیار کی انا کی جنگ ہے ۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ آپس میں دست وگریبان ہے ۔
طاقتور لوگوں کی ایک لڑائی کراچی میں چل رہی ہے ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی لڑائی کو کوئی صاحب ہوش اصولوں کی لڑائی قرار نہیں دے سکتا ۔ مصطفیٰ کمال کی طرف سے ڈاکٹر عشرت پر لگائے جانے والے الزامات ایک فرد کیخلاف نہیں بلکہ ان طاقتور اداروں کے خلاف چارج شیٹ ہیں جن کی مرضی اور منظوری سے ڈاکٹر عشرت پچھلے 14برس سے گورنر ہائوس سندھ میں بیٹھے ہیں ۔مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد نے جو تماشہ شروع کیا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی ڈگڈگی موجود ہے لیکن اسے بجانے والا کراچی میں نہیں کہیں اور بیٹھا ہے ۔ آئین کے مطابق سندھ کا گورنر دراصل صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے ۔ موجودہ گورنر سندھ کو جنرل پرویز مشرف لیکر آئے تھے لیکن آج کل وہ اس وفاق کے نمائندے ہیں جس میں تمام اختیارات وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ہیں ۔ صوبے کے گورنر کی طرف سے کھلم کھلا سیاسی بیانات پر وفاق کی خاموشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈگڈگی والا اسلام آباد کے ریڈ زون میں کہیں بیٹھا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون ہو سکتا ہے ؟ زیادہ مت سوچیئےبس اتنا جان لیجئے کہ اسلام آباد اور آس پاس کے علاقوں میں ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد ڈگڈگی والے ہیں اور ’’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ کی صدائیں لگا رہے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت تو مضبوط نظر آتی ہے لیکن جمہوریت کمزور ہے ۔ سیاست دان اپنی لڑائی میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو گھسیٹ رہے ہیں ۔
ہمارے کچھ ادارے تو خود ہی سیاست میں گھس جاتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ سیاست میں مداخلت سے گریز کرے تو اسے زبردستی سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے۔ ہم سب نے دیکھا کہ پاکستان کے آئین سے غداری کے ملزم جنرل پرویز مشرف کو چار چھ ہفتوں کیلئے علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنا حکومتی فیصلہ تھا ۔ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے میں ایسی کوئی اجازت نہ دی گئی تھی لیکن حکومت نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مشرف کو بیرون ملک بھجوایا جا رہا ہے ۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ سامنے آیا تو اسے طے کرنے کی بجائے لٹکایا گیا اورا سپیکر قومی اسمبلی کو اس میں گھسیٹ کر انہیں متنازعہ بنا دیا گیا ۔ اب عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے تو حکومت اس معاملے کو سیاسی و انتظامی طریقے سے حل کرنے کی بجائے ایک دفعہ پھر عدالتوں سے یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ وہ عمران خان کو 2نومبر کے احتجاج سے روک دیں ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ عدالتوں کو سیاست میں گھسیٹنے کی بجائے پانامہ پیپرز پر اپوزیشن کے موقف پر کچھ لچک دکھائیں اور عمران خان سے 2نومبر کے احتجاج کا جواز چھین لیں؟
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان آئین سے بغاوت نہیں ؟ میں جواب میں کہتا ہوں کہ یقیناً کسی فرد یا جماعت کو اسلام آباد بند کرنے کا اختیار نہیں لیکن جب ملک کا چیف جسٹس یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے تو پھر آپ اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کو آئین سے بغاوت کیسے قرار دیں گے ؟ یہ ناچیز پانامہ پیپرز کے معاملے پر حکومت کے تاخیری حربوں سے نالاں ہے اور اسلام آباد بند کرنے کے اعلان پر بھی پریشان ہے ۔ وزیر اعظم صاحب چاہیں تو سب کی پریشانی دور ہو سکتی ہے ۔ وہ اپنی ڈگڈگی بند کر دیں تو دوسری طرف سے ڈگڈگی بجانے والا خاموشی پر مجبور ہو جائے گا بصورت دیگر دونوں طرف سے ڈگڈگی بجتی رہےگی اور مجھ جیسے پاگل کسی ایک کی ڈگڈگی پر ناچنے کی بجائے دونوں پر انگلی اٹھاتے رہیں گے۔


.
تازہ ترین