• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، جہاں بہت سی قوتوں کو ناگزیر فیصلے کرنا ہیں۔ یہ فیصلے پاکستان کے مستقبل کی صورت گری کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے دانشمندی کا تقاضا کرتے ہیں۔ بہت سے چیلنجز ہیں، بہت سے خدشات ہیں اور بہت سے امکانات ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں ان حالات کا ادراک کرنا چاہئے کہ ہمارے خطے سمیت دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی عالمی بالادستی والا نیو ورلڈ آرڈر اب تیزی سے غیر متعلق ہو رہا ہے۔ نئی سپر پاورز ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے سے لے کر اب تک تقریباً 37 سالوں سے امریکی مفادات کی جنگ میں اپنا سب کچھ تباہ کرنے کے بعد پاکستان نئے اہداف اور نئے عزم کے ساتھ اپنا علاقائی اور عالمی کردار ادا کرنے کی تیاری کر چکا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو جس طرف ذوالفقار علی بھٹو یا بعد کے بعض سیاست دان لے جانا چاہتے تھے، اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خود اسی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ دنیا میں نئی سپر پاورز ابھر رہی ہیں۔ روس اور چین ’’ فرنٹ فٹ ‘‘ پر آکر کھیل رہے ہیں اور نئے عالمی بلاک کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ پاکستان اس نئے بلاک میں اپنے لئےبے پناہ امکانات دیکھ رہا ہے لیکن پاکستان جن قوتوں کے لئے طویل عرصے تک کام کرتا رہا ہے اور جنہیں ایوب خان نے ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘‘ کہا تھا، وہ اب یہ برداشت نہیں کریں گے کہ پاکستان دوسرے کیمپ میں جائے۔ وہ پاکستان کے لئے داخلی او رخارجی محاذ پر بے پناہ مشکلات پیدا کریں گے، ان مشکلات سے نمٹنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان میں کوئی قد آور سیاسی شخصیت ایسی نہیں ہے، جو حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کر سکے۔ خارجی امور میں بہت حد تک سویلین حکومت کی گائیڈ لائن یا کنٹرول نہیں ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ جب تک یہ جنگ امریکہ کی جنگ تھی تو یہ ایک مصنوعی جنگ تھی اور پاکستان اس جنگ کے باوجود دہشت گردی کے عذاب میں جکڑتا چلا گیا۔ جب سے پاکستان نے اسے اپنی جنگ بنایا ہے، تب سے دہشت گردی کے خاتمے میں حقیقی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں لیکن یہ جنگ بہت پیچیدہ اور مشکل جنگ ہے۔ اس میں حتمی فتح حاصل کرنا بھی دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کا منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کے لئے ’’ گیم چینجر ‘‘ ہے۔ بہت سی بیرونی قوتیں اس منصوبے کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔ اس منصوبے پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سیاسی جماعتوں کو اس طرح اعتماد میں نہیں لیا، جس طرح لیا جانا چاہئے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں اور کسی حد تک اسے سیاسی طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سی پیک کا منصوبہ ایک ’’ سیکورٹی ایشو ‘‘ بن گیا ہے، جو قومی سلامتی کے کئی ایشوز میں سے ایک ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں بھی سویلین حکومت کا عمل دخل بہت کم ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں اگرچہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ کی کیفیت رہتی ہے لیکن پاکستان میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے ایسے سیاسی حالات پیدا ہو گئے ہیں، جنہوں نے غیر یقینی کی فضا کو جنم دیا ہے۔ پاناما لیکس سے پاکستان میں سیاسی بھونچال آ گیا ہے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پہلی مرتبہ ایسی مشکلات کا سامنا ہے، جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا شروع سے یہی سیاسی ہدف تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے الگ کیا جائے۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے لئے پنجاب میں بہت زیادہ گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ پاناما لیکس نے عمران خان کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے تمام ضروری حالات میسر کر دیئے ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی خبر نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس خبر سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بہت زیادہ فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ آج صورت حال 2014 سے مختلف ہے، مسلم لیگ (ن) کی آج سیاسی اور اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہے۔
ادھر عمران خان بھی اپنی فیصلہ کن سیاسی اننگز کھیلنے جا رہے ہیں اور انہوں نے 2 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کی تاریخ پر نظرثانی کرتے ہوئے دھرنے سے ایک دن پہلے یعنی یکم نومبر کو مقدمے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی دی ہوئی تاریخ پر نظرثانی کرے اور مقدمے کی جلد سماعت کرے۔ نومبر کے آخر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ریٹائر ہو رہے ہیں اور دسمبر میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی بھی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال میں بعض اندرونی اور بیرونی قوتیں بھی اپنا اپنا ایجنڈا سیٹ کر چکی ہیں۔ پاکستان دوراہے پر ہے۔ بہت سے خدشات ہیں اور بہت سے امکانات ہیں۔ ان میں سیاسی اور عسکری قیادت کو کیا کرنا چاہئے، یہ ان کے لئے امتحان ہے۔
جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کے پہلے سربراہ ہیں، جن کے جانے پر کوئی خوش نہیں ہے۔ انہوں نے ملک کی سیاست میں حصہ نہ لیتے ہوئے، وہ کام کیا، جو تقریباً ناممکن تھا۔ انہوں نے پاکستان کے عوام کو یقین دلا دیا ہے کہ دہشت گردی کے عذاب سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس سے پہلے لوگوں کو یقین نہیں تھا۔ پاکستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ راحیل شریف پاکستانی فوج کے سپہ سالار رہیں کیونکہ بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے بھی نمٹنا ہے، دہشت گردی کی جنگ کو اپنے انجام تک پہنچانا ہے، سی پیک کو مکمل کرنا ہے اور قومی سلامتی کے دیگر معاملات کو بھی دیکھنا ہے۔ جہاں تک پاناما لیکس کی تحقیقات اور عمران خان کے احتجاج کا معاملہ ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ عدالتی فیصلے سے تعاون کرے اور جو فیصلہ آئے، اسے تسلیم کرے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کو روکنے کے لئے حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سیاسی کوششیں کرے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرے اور اس کے لئے اس نے وفاقی وزراء کی تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ وہ دھرنے کو روکنے کے لئے اس حد تک نہ جائے کہ حالات خراب ہو جائیں اور معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ صورت حال ایسی ہے، جو پلک جھپکنے میں بدل سکتی ہے۔ عوام بہت پریشان ہیں کیونکہ ان حالات میں بہت سی قوتیںبھی کود گئی ہیں۔ صرف یہی کہنا ہے کہ جن قوتوں اور افراد کے فیصلوں سے پاکستان کے سیاسی مستقبل کا تعین ہونا ہے، ان قوتوں کو دانشمندی سے اپنے فیصلے کرنا چاہئیں۔


.
تازہ ترین