• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو نومبر کو کیا وفاقی دارالحکومت بند ہو جائے گا، حکومتی امور ٹھپ ہو جائیں گے،سرکاری اور نجی ملازمین دفاتر نہیں جا سکیں گے، طلبا و طالبات تعلیمی اداروں اور مریض اسپتالوں میں نہیں پہنچ پائیں گے، بیرون ممالک جانے والے ویزےکیلئے سفارتخانوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے، تاجر اپنا کاروباراور مزدور دیہاڑی نہیں کر سکیں گے،میٹرو بس بند اور زندگی کو رواں رکھنے کا پہیہ رک جائے گا،اسلام آباد کے رہائشی گھروں میں محصور ہو جائیں گے، تعلیمی اداروں میں مظاہرین سے نمٹنے کیلئے طلب کی گئی فورس کے جوانوں کا پڑاؤ ہو گا۔ کنٹینروں کی تنصیب سے پورا شہر علاقہ ممنوعہ ہو گا۔ گزشتہ دھرنے کی حکومت اس بار بھی خاموش تماشائی بنی رہے گی، عوام کے ساتھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احتجاجی مظاہرین کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جائے گا،اہم عمارتوں اور تنصیبات کی حفاظت کیلئے طلب کئے گئے جوانوں کے سامنے قانون کی دھجیاں آڑائی جائیں گی، فضا میں آنسو گیس اور بارود کی بو پھیلی ہو گی،ہرطرف کرچیاں اور توڑ پھوڑ کی نشانیاں بکھری پڑی ہوں گی، شاہراؤں اور داخلی و خارجی راستوں کا کنٹرول ڈنڈا بردار مظاہرین کے ہاتھوں میں ہو گا،وفاقی وزراء دفاتر کی بجائے خوف کے مارے گھروں میں بیٹھے ہوں گے،کچھ سامان سمیٹنے کی فکر میں ہوں گے، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اسلام آباد پر دھاوے اور حکومتی بے بسی کی لمحہ بہ لمحہ منظر کشی کر رہا ہوگا۔ حقائق کا پردہ چاک کرنے والے میڈیا دفاتر اور ان کے نمائندے مشتعل مظاہرین کے غیظ و غضب کا نشانہ بن رہے ہوں گے، سیاسی کارکنوں کو مخصوص مقاصد کے حصول کے لئےاستعمال کیا جائے گا، کچھ معصوم لوگ اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل کی بھینٹ چڑھ جائینگے، کپتان وزیر اعظم کو عہدہ چھوڑنے کے الٹی میٹم دے رہا ہو گا، جمہوریت کی بقا کیلئے آئین کی بالا دستی کی حامی جماعتیں منتخب حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی، جمہوریت ایک بار پھر راندہ درگاہ ہو جائے گی یا خصوصی عدالت میں زیر سماعت آئین شکنی کا مقدمہ تاریخ کو دہرانے کی راہ میں بطور سبق رکاوٹ بن جائے گا۔ یہ ہیں وہ تمام سوالات اور خدشات جو ایک ناخواندہ پاکستانی سے لے کرہر ذی شعور شہری کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں لیکن فی الحال ان کے جوابات نہ شہر اقتدار کو بند کرنے کی کال دینے والوں کے پاس ہیں اور نہ ہی ریت کو مٹھی میں بند رکھنے کی کوشش کرنے والے کسی حتمی نتیجے کی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ 69 سالہ ماضی کی یادوں کا عذاب ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنانے کے باوجود دھڑکا بس ایک ہی لگا ہوا ہے۔ خوف ہے توبھی بس ایک جو انجانا نہیں بلکہ کئی دہائیوں کی تاریخ اسے رگ و پے میں سرایت کرنے کیلئے کافی ہے،ماضی کی پر چھائیاں جب ذہن پرسوار ہوں تو زبان پر’ڈگڈی‘کا ذکر آ ہی جایا کرتا ہے اور پھر،ایک جاتا ہے دوسرا آ جاتا ہے، کے الفاظ بے اختیار ادا ہو جاتے ہیں۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو…میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دو سال پہلے جب تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا تواسی دوران منعقدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں جناب وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ جب یہ سب ختم ہو جائے گا تو وہ بتائیں گے کہ اس احتجاج اور دھرنے کے مقاصد کیا تھے تاہم آج تک انہوں نے اس پر کوئی لب کشائی نہیں کی، پاناما لیکس کے بعد قوم سے دوسرے خطاب میں بھی انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سب جانتے ہیں کہ پاناما پیپرز کی آڑ میں کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم وہ راز بھی آج تک ان کے سینے میں ہی دفن ہے۔ سید خورشید شاہ نے کہا تو وزیر اعظم کو کہ انہوں نے ایسا بیان دے کر جلتی پر تیل کی بجائے ہائی او کٹین ڈال دیا لیکن حقیقت میں اس بیان کی اپوزیشن لیڈر نے خود تشریح کردی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی سیاسی مفادات کیلئے ریاستی اداروں کے ما بین ’ہم آہنگی‘ نہیں چاہتی۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ دو نومبر کے حوالے سے شہر اقتدار میں جو کچھ چل رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ قارئین کیلئے چند نقطوں کو ملا کر تصویر کو واضح کرتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کی سماعت شروع ہونے کے باوجود دو نومبر کے اسلام آباد لاک ڈاون منصوبے پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے،وہ عدالت عظمی کے فیصلے کا انتظار کرنے پر کیوں تیار نہیں ہیں،احتجاج کے ذریعے وزیر اعظم کو آئینی طور پر عہدے سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے،کپتان کو امیدیں کیا ہیں۔ پاناما پیپرز پر سماعت کرنے والی اسی سپریم کورٹ میں اس احتجاج کو روکنے کے حوالے سے دی گئی آئینی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ یہ درخواست جس وکیل کی طرف سے دائر کی گئی بلکہ کرائی گئی تھی وہ کیا شہرت رکھتے ہیں۔ عدالت عظمی نے دو نومبر سے ایک دن پہلے سماعت کی تاریخ کیوں مقرر کردی ہے، قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے ہراول دستے دفاع پاکستان کونسل نے اٹھائیس اکتوبر کو احتجاج کا اعلان کیا، کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کی یاد برہان وانی کی شہادت کے تقریبا ًچار ماہ بعد ہی کیوں آئی ہے، دو نومبر کے احتجاج اور اسلام آباد کو بند کرنے کیلئے اسی کونسل میں شامل تنظیموں سے افرادی قوت کیوں طلب کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب ان تنظیموں کیا پیغام دیا گیا ہے، انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر نے ریاستی اداروں میں ہم آہنگی کو اس قدر متاثر کردیا ہے کہ فرزند راولپنڈی بھڑکیں مارنے لگے ہیں کہ معاملات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اچانک کپتان کی محبت میں کیوں سرشار ہو کر بن بلائے مہمان بننے کا اعلان کر رہے ہیں اور معاملہ کہیں اور پہنچنے کا سنا کر کسے ڈرا رہے ہیں۔ طاہر القادری سوئٹزرلینڈ سے لندن پہنچ کر تحریک انصاف کے احتجاج کے مقاصد کیوں جاننا چاہتے ہیں، کہیں وہ آخری لمحات میں کوئی سرپرائزدینے کے موڈ میں تو نہیں۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت وزیر اعظم کے احتساب کی حامی دیگر اپوزیشن جماعتیں دو نومبر کے احتجاج میں کیوں شامل نہیں ہوئیں۔ اعتزاز احسن کے بقول عوام کو دو نومبر کو خون خرابے سے کیوں ڈرایا جارہا ہے،حکومت کے پاس ایسی کون سی اطلاعات ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے ہیں۔ ملک میں امن وامان کے ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ گزشتہ دھرنے کی طرح اس بار بھی کیوں خاموش ہیں، وہ خود شہریوں کو ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا یقین کیوں نہیں دلا رہے۔ احتجاج کا شوق پورا کرنے کے طعنے دینے والے وفاقی وزراء اب تحریک انصاف سے پس پردہ رابطوں کیلئے کیوں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر کی منتیں کیوں کی جاری ہیں اور ملک بھر میں احتجاج کی اجازت دینے والی حکومت اس بار کپتان کو نظر بند یا گرفتار کرنے کی تجاویز پر کیوں غور کر رہی ہے۔ قارئین ان تمام نقطوں کو ملا کر بھی اگر تصویر واضح نہیں ہوتی تو دو نومبر کا انتظار کریں اور خیر کی دعا مانگیں لیکن ساتھ ہی ملک کاماضی ذہن میں رکھیں۔


.
تازہ ترین