• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہم نے نعرہ لگایا پاکستان زندہ باد، آزادی زندہ باد لیکن آزادی کے کچھ عرصہ بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں کی وجہ سے آزادی غلامی میں تبدیل ہوگئی۔ آج یہ سودی قرضے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ پاکستان کا ہر فرد ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ اس قرضے کے ساتھ سود بھی دینا پڑتا ہے جیسا کہ اسلام میں سود جائز نہیں ہے تو پوری قوم اس گناہ عظیم میں مبتلا ہوگئی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے میں نے2000ء میں حکومت کو خط لکھا کہ ہمارے پاس وسائل ہیں اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو انشاءاللہ ان قرضوں سے نجات مل سکتی ہے۔ ہمارے ہاں کھربوں ڈالر کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں، مثلاً لاہور گورنر ہائوس 600 کنال ،سرگودھا کمشنر ہائوس 104کنال، فیصل آباد ڈی سی ہائوس 92 کنال، بہاولپور کمشنر ہائوس 72کنال تو پورے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر محیط یہ رہائش گاہیں ہیں۔ ان کی تزین و آرائش پر اربوں روپے سالانہ خرچ بھی آتا ہے۔اب چونکہ یہ شہروں کے وسط میں آگئی ہیں اور کمرشل ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت فی کنال کروڑوں روپے ہوگئی ہے۔ بورڈ آف ریونیو پنجاب کے مطابق ان رہائش گاہوں کے مالکانہ حقوق منتقل نہیں ہوسکتے۔ان میں گھوڑی پال سکیم انگریز سرکار نے تقریباً صدی پیشتر ایک مربعہ زرعی اراضی جاگیردار /نمبردار کو پٹہ پر دی تھی تاکہ فوج کو پہاڑوں پر اسلحہ کی ترسیل کے لئے گھوڑے اور خچر دستیاب ہوسکیں۔ اس وقت سے آج تک سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ ہیلی کاپٹر، میزائل، راکٹ ، جنگی طیارے ایجاد ہوچکے ہیں اور ڈرون کا زمانہ آگیا ہے نقل و حمل کے ذرائع سرعت اختیار کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں2001ءمیں پنجاب کے گورنر جنرل(ر) محمد صدر نے صوبائی وزیر مال ملک محمد اسلم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی کہ گھوڑی پال سکیموں کی اراضی کو فروخت کردیا جائے۔ پنجاب میں 4000 ہزار مربعہ جات ہیں، ایک مربعہ257ایکڑ تقریباً 6کروڑ روپے کا ہوگا۔ یہ رہائش گاہیں اور گھوڑی پال اراضی کسی کی ذاتی یا موروثی نہیں ہے گورنمنٹ (عوام) کی ملکیت ہے۔ عوام آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے حکم پر ٹیکس ادا کرکے روح اور جسم کا رشتہ ختم کررہے ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ قرضوں سے نجات حاصل کرکے ایک پروقار قوم کی حیثیت سے دنیا میں مقام حاصل کرسکیں۔
(چودھری بشیر احمد)

.
تازہ ترین