• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگری داتا دی ... انداز بیاں … سردار احمد قادری

لاہور کو حضرت علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخشؒ کی وجہ سے جو عزت اور شہرت نصیب ہوئی ہے وہ لازوال ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ انہیں داتا گنج بخش کیوں کہتے ہیں ان کے نام سے کیوں نہیں پکارتے۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی داتا گنج بخش ان کا لقب ہے ٹائٹل ہے جسطرح کسی بادشاہ کا نام کچھ بھی ہوتا ہے لیکن اسے ’’جلالۃ الملک‘‘ کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ اس کا نام نہیں ہوتا صرف ٹائٹل ہوتا ہے اور یہ لقب گنج بخش حضرت علی بن عثمان ہجویری کو حضرت معین الدین چشتی نے دیا تھا جب وہ ہندوستان میں معرفت حقیقت و تصوف کا چراغ جلانے آئے تھے تو حضرت علی ہجویری کے مزار پُرانوار پر حاضری دی تھی صرف ایک دن کے لئے نہیں، یہاں چالیس دن قیام کیا تھا اور یہاں قیام سے انہوں نے صاحب مزار سے جو فیض حاصل کیا اس کا اعتراف یوں فرمایا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے اس اظہار عقیدت کا ترجمہ میں نے کچھ یوں کیا ہے۔
خزانے بانٹتے ہیں فیض عالم مظہرنور خدا ہیں یہ
یہ ناقص کیلئے ہیں پیر کامل کاملوں کے رہنما ہیں
حقیقت یہ ہے کہ حضرت خواجہ نے یہاں سے جو فیض حاصل کیا اس سے حاصل کردہ روشنی سرزمین ہندوستان کے طول وعرض میں یوں پھیلائی کہ وہ روشن چراغ اب ایک ایسا نیرتاباں بن چکا ہے کہ جس سے ہندوستان کا کونہ کونہ جگمگا رہ اہے۔ جب حضرت داتا صاحب لاہور تشریف لائے تھے اس وقت وہ ملتان کے مقابلے میں ایک چھوٹا شہر تھا۔ خود فرماتے ہیں ’’ یکے از مضافات ملتان است‘‘ کہ یہ ملتان کے قریب وجوار میں واقع ہے۔ لاہور کو حضرت داتا گنج بخش سے وہی نسبت ہے جو اجمیر کو حضرت خواجہ سے ہے یا بغداد کو حضرت غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر الجیلانی اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام رضی اللہ عنہ سے ہے، یا ملتان کو حضرت غوث بہائو الدین زکریا اور پاک پتن کو حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اور دہلی کو حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت نظام الدین اولیاء سے ہے یہ ممکن نہیں کہ کوئی اہل محبت و عقیدت ان شہروں میں جائے اور وہاں پر آرام فرما ان مشاہیر اسلام اور بزرگان دین کے مزارات پر حاضری نہ دے۔ صاف ظاہر ہے ان مزارات پر حاضری کا مقصد ان کو سلام کرنا انہیں خراج عقیدت پیش کرنا ان کی ارواح کو ثواب پہنچانے کی خاطر قرآن پاک اور ازکار مسنونہ کی تلاوت کرنا یا غریبوں کو کھانا کھلانا ہوتا ہے۔ یہ وہ عمال ہیں جو ان پاکیزہ شخصیات کو مرغوب اور محبوب تھے جب ان کے مزارات پرحاضری دینے والا یہ عمل کرتا ہے تو ان کی ارواح بہت مسرور اور خوش ہوتی ہیں اور ان کی ارواح اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آنے والے ان زائرین کی دعائوں اور مناجات کی قبولیت ضروریات و حاجات کے حصول اور آفات و بلیات کے دفع کے لئے دعائے خیر کرتی ہیں اور یہاں حاضری دینے والے اپنے اپنے نیک مقاصد کے حصول میں کامیابی حاصل کرتے ہیں جسطرح اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعائیں کرنا جائز ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے حضور دست دعا بلند کرنا مقبولیت و افادیت کی سند ہے۔ کیونکہ ہمارے اعمال میں ریاکاری کھوٹ اور ملاوٹ ہوسکتی ہے لیکن ان عظیم المرتبت شخصیات کی ساری زندگی اتباع احکامات الٰہی اور سنت مصطفویؐ میں کچھ یوں بسر ہوتی ہے کہ یہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی عملی تصویر اور تفسیر بن جاتے ہیں۔ ان کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ حدیث مبارکہ کے الفاظ کے مطابق (ازارئوو ذکراللہ) جب انہیں دیکھو تو اللہ یاد آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظارہ تو جنت میں ہوگا۔ اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ انہیں دیکھو تو اللہ کا حبیب رئوف الرحیم یاد آتا ہے۔ کیونکہ یہ سیرت طیبہ کا حسین عکس اور پرتو ہوتے ہیں یہ لوگوں کی پبلیسٹی کے محتجاج نہیں ہوتے۔ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں کے دلوں میں ان کی محبت اور عقیدت ڈال دیتے ہیں جن حکمرانوں کی حقیقی اولاد ہوتی ہے وہ بھی چند نسلوں کے بعد ویران قبرستان کی ایک گمنام قبر میں سنگ مزار بن کر رہ جاتی ہیں جسطرح اپنے وقت کا شہنشاہ جہانگیر جس کی قبر لاہور کے ایک خوبصورت باغ میں واقع ایک عالیشان مقبرہ کے اندر موجود ہے لیکن وہاں چمگادڑوں کا ڈیرہ ہوتا ہے جب کہ ایک غریب الدیار پردیسی جو افغانستان کے شہر غزنی کے محلہ ہجویر سے لاہور آیا تھا ایک شاہراہ پر بیٹھ کر شمع توحید رسالت کو یوں فروزاں کیا کہ آج اس کے اجالے سے پورا برصغیر روشن اور پرنور ہے آپ کسی وقت بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار پرانوار پر چلے جایئے وہاں آپ کو قرآن پاک پڑھنے والے، درود و سلام کی تسبیحات پڑھنے والے، اذکار کا ورد کرنے والے خاموش بیٹھ کر تصور شیخ کرنے والے اور مراقبہ کی کیفیت میں جاکر حضرت داتا گنج بخش کی روح مبارک سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرنے والے مل جائیں گے۔ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ الحمدللہ میں ان تمام طریقوں سے حضرت داتا صاحب کے مزار پر حاضری کی سعادت حاصل کرچکا ہوں۔ لاہور میں دوران تعلیم میں عام طور پر رات گئے حاضری دیا کرتا تھا، عام طور پر عشاء کی نماز کے وقت وہاں پہنچتا اور پھر جب تک توفیق حاصل رہتی وہاں حاضر رہتا۔ عرس کے دنوں میں نیوکمپس سے آنے والی آخری بس میں سوار ہوتاپرانی انارکلی میں روائتی لاہوری مزیدار کھانا کھا کر نصف شب کے قریب داتا دربار پہنچتا اس وقت تک رش کافی حد تک کم ہوچکا ہوتا۔آپ نے وہ لطیفہ تو سن رکھا ہوگا جس میں ایک شخص اخبار میں اپنااشتہار شائع کراتا ہے کہ دو گھنٹے کے لئے ایک نوکر درکار ہے۔ تنخواہ نہیں ہوگی لیکن دو وقت کا کھانا دیا جائیگا۔ ایک ضرورت مندپہنچ گیا کہ کھانا تو مفت ملے گا۔ صرف دو گھنٹے کا ہی تو کام ہے۔ اشتہار دینے والے سے اس نے پوچھا کہ کام کیا کرنا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ دوپہر اور شام کو داتا دربار جانا ہے اپنا کھانا بھی کھانا ہے اور میرا کھانا لے آنا ہے۔ بس یہی کام ہے۔ سچ یہ ہے کہ آپ داتا دربار کسی بھی وقت چلے جائیں وہاں جس طرح زائرین کا ہجوم ہوتا ہے اسی طرح عوام الناس میں کھانا تقسیم کرنے والے مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں۔ حضرت داتا گنج بخش کو زندگی بھر لوگوں کو کھانا کھلانا بہت پسند تھا اور تمام اولیائے کاملین کا طریقہ رہا ہے کیونکہ بھوکوں کو کھانا کھلانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ اور محبوب عمل ہے آپ سرمایہ داروں وڈیروں جاگیرداروں وزیروں اور بادشاہوں کے پاس جاکر خالی پیٹ واپس آسکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خود جاہ وحشمت اقتدار و اختیار کے بھوکے ہوتے ہیں اس لئے کسی کو کیا دے سکتے ہیں لیکن آپ داتا دربار جائیں اور بھوکے واپس آجائیں یہ ممکن ہی نہیں جس قبیلے کو انہوں نے مسلمان کیا وہ گھر آج تک دودھ کے بڑے بڑے مٹکے لے کر آتے ہیں اور برتن میں خالص دودھ تقسیم کرتے ہیں ربیع الاول کے مہینے 2015 کے دسمبر میں ایک جمعرات کو داتار دربار حاضری ہوئی اور سیکورٹی کے کئی مراحل سے گزر کر جانا پڑا۔ اندر وہی دیوانوں کا ہجوم تھا اور تلاوت واذکار کا وہی روح پرور منظر تھا۔ داتار دربار جب بھی جاتا ہوں تبرک کے طورپر کچھ نہ کچھ کسی کے ہاتھ سے کچھ مل جاتا ہے جس میں حضرت داتا صاحب کی نظر کرم سمجھتا ہوں لیکن اس حاضری کے بعد ایک پر تکلف کھانا بھی کہیں نہ کہیں میرا انتظار کررہا ہوتا ہے لاہور کے یہ لذیذ پکوان اور کھانے بھی اللہ تعالیٰ کے اس مقبول بندے سیدنا علی بن عثمان ہجویری کی مہربانی سمجھتا ہوں بیشک اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے لیکن وسیلے سے بھی دیتا ہے۔ بحمد اللہ وسیلے کا منکر نہیں ہوں۔


.
تازہ ترین