• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب یہ عمران خان کو برابھلا بلکہ برا برا کہتےہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے عمران کو نقصان کی بجائے فائدہ ہوتا ہے جس کا سلیس زبان میں ترجمہ یہ کہ پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ پہنچتا ہے اور تحریک انصاف ایسی واحد سیاسی حقیقت ہے جو صحیح معنوں میں سٹیٹس کو کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پاکستانیوںکےکل کتنے سال اور کتنا مال ہڑپ کرچکیں اور اب ان کی اگلی نسلیں ہماری اگلی نسلوں کا استحصال کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔عمران خان چند اہداف تو پہلے ہی حاصل کرچکا۔ اول یہ کہ اس نے ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات کو تہہ و بالا اور اتھل پتھل کردیا ہے۔ موٹروے اور میٹرو جیسی قبل از وقت عیاشیوں کے شوقینوں کواب آہستہ آہستہ ’’تعلیم‘‘ اور ’’صحت‘‘جیسی بھولی بسری لغویات بھی یاد آنے لگی ہیں۔ عمران خان کا اعصاب شکن اور کمر توڑ پریشر اسی طرح برقرا ر رہا تو انہیں اور بہت کچھ بھی یاد آنےلگے گا۔ انہیں نوٹنکیوں کی بجائے دیگر جینوئن اصلاحات کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔عمران کی دوسری بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ان طبقات کو بھی موٹی ویٹ اور موبلائز کردیا ہے جو سیاست پرچار حرف بھیجنا بھی پسند نہیں کرتے تھے جبکہ انہی طبقات کا رول ملکی تعمیر و ترقی میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔عمران کی تیسری کامیابی پاکستانی یوتھ کو بیدار اور منظم کرنا ہے جس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ فارغ دماغ شیطان کا بسیراہوتا ہے۔ عمران نے یوتھ کو بامعنی تبدیلی کا ٹارگٹ دے کر انہیں تعمیری سرگرمیوں میں مصروف کرکے ان کی بیکاری اور بیروزگاری کو کار خیر میں بدل دیا ہے۔عمران کا ایک احسان خود ن لیگیوں پر بھی ہے جنہیں ان کی اعلیٰ قیادت منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھی۔ عام ورکر تو دور کی بات، ن لیگ کےاچھے خاصے معززین بھی روتے پھرتے تھے کہ انہیں گھاس تو کیا، خشک چارابھی کوئی نہیں ڈالتا لیکن اب یہ سب خوش ہیں اور عمران خان کو اس پر داد بھی دیتے ہیں کہ اس کےخوف نے ان کی متکبر قیادت کی گردنوں کا سریا نکال دیا ہے۔عمران خان سیاسی سین پر نہ ہوتا تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پاناما کب کا افسانہ بن چکا ہوتا بلکہ ’’زچگی‘‘ کےدوران ہی فوت ہو گیا ہوتا۔ عمران نے جتنی شدید محنت، ہمت، حوصلے، مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ کے ساتھ اس اہم ترین ایشو کو زندہ رکھا یہ اسی کا کام تھا۔ ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوا کہ کرپشن کے بارے میں اجتماعی عوامی شعور کی سطح بھی بتدریج بلند ہوتی جارہی ہے ورنہ حکمرانوں کی لوٹ مار کرپشن کے قصے تو سنے سنائے اور لکھےبھی جاتے تھے لیکن آج سے چند ماہ پہلے تک موجودہ صورتحال کا تصور بھی ممکن نہ تھا کہ آج کرپشن دو پاٹن کے بیچ حیران پریشان کھڑی اپنا انجام دیکھ رہی ہے۔ ایک طرف عدالت ہے تو دوسری طرف عوام کی عدالت اور کرپشن کی یہ حالت کہ نکلنے کا رستہ نہیں مل رہا۔ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے دوستدریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملاعمران وہ پہلا سیاستدان ہے جس نے بیک وقت تمام مافیاز کو اس طرح للکارا ہے کہ وہ بری طرح سہم جانےکے بعد کونے میں اکٹھے ہو کر ادھم مچا رہےہیں کہ ’’عمران اکیلا رہ گیا‘‘ یہاں مجھےصلاح الدین ایوبی جیسا تاریخ ساز جنگجو یاد آتا ہے جس کے خلاف صلیبی حکمرانوں کی فوجیں یکجا ہوگئیں تو اس کے مشیروں نے سلطان کو صورتحال ٹالنے کامشورہ دیا۔ دلیل یہی تھی کہ سب کافر اکٹھے اور ہم اکیلے ہیں۔ سلطان نے جواب دیا کہ یہی دلیل تو میرے لئے اس وقت جہاد کے حق میں جاتی ہے کہ اللہ نے ہمارے سب دشمن ایک جگہ جمع کردیئے ہیں۔ یہی تو موقعہ ہے انہیں منطقی انجام سے دوچار کرنے کاورنہ بعدمیں کہاں انہیں ایک ایک کرکے ڈھونڈتے مارتے پھریں گے۔میں نے نیم مردہ پی ٹی آئی میں جان پڑنے کو ہمیشہ قدرت کا احسان، معجزہ نما یا نیک شگون سمجھا ہے سو اگر نیچے عوام اور اوپر اللہ اس کے ساتھ ہے تو اکیلگی اور تنہائی کیسی؟نہ گھوڑادو ر نہ میدان.....سب کھل جائے گا کہ تنہا کون اور رونق کہاں؟ سیاہ رو کون اور سرخرو کون؟ ابھی تو ’’لیک‘‘ او ر ’’فیڈ‘‘ کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق ’’قربانی کا بکرا‘‘ اڑیل گدھے میں تبدیل ہو کر عالم پناہوں کو دھمکیوں کی دولتیاں مارتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ مجھے پھنسایا گیا تو میں وعدہ معاف گواہ بن کر صاف صاف بتادوں گا کہ مجھے کس نے اُکسایا۔دھرنا ہو گیا تب بھیدھرنے سےپہلے دھر لئے گئے تب بھیچھری خربوزے پر گری تب بھیخربوزہ چھری پر جاگرا تب بھی فیصلہ ہو جائےگا تنہا کون اور رُسوا کون؟


.
تازہ ترین