• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلموں میں تو نقلی آنسوئوں کے دریا بھی بہائے جاسکتے ہیں لیکن زندگی کی اسٹیج پر ہزاروں افراد کی موجودگی میں آنسو اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک باطن میں درد کی کرن موجود نہ ہو۔ آنسوئوں کی بہت سی قسمیں ہیں اس لئے کہ آنسو بے بسی اور مظلومیت کے بھی ہوتے ہیں جو آسمانوں کو چیرتے ہوئے رب کے حضور پیش ہوجاتے ہیں اور اگرقبولیت پالیں تو ظالموں کی سلطنتیں تک الٹ دیتے ہیں۔ آنسو ندامت اور خوف الٰہی کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں اور یہ وہ آنسو ہیں جو اگر تنہائی میں بہائے جائیں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں، گناہوں کو دھودیتے ہیں اور بخشش کا بہترین ذریعہ بنتے ہیں۔ آنسو خوشی کے بھی ہوتے ہیں اور آنسو غم کے بھی ہوتے ہیں۔ اقتدار کے عروج پر جوابدہی اور خوف خدا سے آنکھیں بھیگ جانا اللہ کی دین ہے اور میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ایسے ا ٓنسوئوں پرشک و شبہ اور طنز کے پتھر پھینکتے ہیں کیونکہ میرے نزدیک یہی آنسو انسان کو راہ راست پر لاتے ہیں، یہی ندامت، پچھتاوہ اور ناکامیوں کا احساس اصلاح کے دروازے کھولتا اور انسان کو اپنے رویوں پر نظر ثانی پہ مجبور کرتا ہے۔ صبح کا بھولا ہوا شام کو واپس لوٹ آئے تو غنیمت ہے کیونکہ میں نے زندگی بھر اقتدار کی راہوں میں اپنے رب کو بھولے ہوئے اور اختیار کے نشے میں مست حکمران ہی دیکھے ہیں۔ دو دہائیاں اقتدار میں گزار کر ، دو دفعہ وزیر اعلیٰ اور تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اگر حکمران کو رعایا کے دکھوں، بدحالی اور غربت کا احساس اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ جوابدہی کے خوف سے آنسوئوں پر قابو نہ پاسکے تو میں اسے توفیق الٰہی سمجھتا ہوں۔ اقتدار کی بام عروج پر ندامت، خدمت کا حق ادا نہ کرنےکا احساس اور آئندہ دکھوں کا مداوہ کرنے کا وعدہ ایسی توفیق ہے جو صرف اللہ پاک کی جانب سے عطا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ والدین اور بزرگوں کی دعائوں کا ثمر ہوتی ہے اور کبھی کبھی اپنے ایسے اعمال کا انعام ہوتی ہے جو دربار الٰہی میں قبولیت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ اس فکری پس منظر میں مجھے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے آنسو نہ ’’نقلی‘‘ لگتے ہیں اور نہ ہی کسی دنیاوی دبائو اور خوف کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ میاں صاحب نے جمہوری اور منتخب وزیر اعظم ہونے کے باوجود بادشاہت قائم کر رکھی ہے اور وہ بادشاہوں کی مانند ہی حکومت کررہے ہیںجس کی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ان مثالوں میں حکمرانوں کی شاہ خرچیاں، قومی خزانے کا بے دریغ ضیاع، اپنی ذات اور سیکورٹی پر اربوں کا خرچ، لاتعداد خلاف میرٹ سیاسی تقرریاں، اقرباء پروری، خوشامد نوازی اور ملک و قوم کو73ارب ڈالر کے قرضے میں جکڑ نا شامل ہیں جس سے ہماری آئند ہ نسلیں غیر ملکی شکنجے میں جکڑی جاچکی ہیں۔ قرض لینے کا کام اور اثاثے گروی رکھنے کا عمل جاری و ساری ہے اور 2018 ء تک یہ بوجھ اتنا بڑھ جائے گا جسے برداشت کرنے کی استطاعت پاکستان کی معیشت میں ہرگز نہیں۔ اس صورت میں ملک کے ایٹمی اثاثوں کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے اور عالمی سطح پر نادہندہ قرار پاکر پاکستان نہ صرف بے وقار ملکوں کی فہرست میں اول نمبر پر ہوگا بلکہ تنہائی اور جگ ہنسائی کا شکار بھی ہوگا۔ ملکی سیاسی منظر پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کو خود حکومت نے کمزور اور بے وقار کیا ہے حالانکہ پارلیمنٹ جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور بحران میں جمہوری نظام کی حفاظت کے لئے کلیدی کردار سرانجام دیتی ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو حکومت کس طرح پامال کرتی ہے ؟ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ قانون کے مطابق حکومت جی ڈی پی کے60فیصد سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی جبکہ موجودہ حکومت نے یہ سرخ لائن مدت ہوئی عبور کرلی ہے۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آتے ہیں نہ اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ کئی دہائیوں کے اقتدار نے انہیں وہ احساس برتری اور غرور عطا کیا ہے جس کے سبب وہ خود کو پارلیمنٹ سے بالاتر سمجھتے ہیں، اگر پارلیمنٹ کے ذریعے احتساب کا تصور موجود ہوتا تو آج حکومت کو پاناما لیکس کے حوالے سے سیاسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ وزیر اعظم صاحب کو اپنے موجودہ مشیروں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے مخالف اور دشمن کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اس کی زندہ اور تازہ مثال وہ’’لیک‘‘ یا خبر ہے جسے ڈان میں فیڈ کیا گیا اور فوج جیسے مقدس ادارے پر الزام کے چھینٹے پھینکے گئے۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم صاحب درباریوں، حواریوں اور خوشامدیوں میں گھرے ہوئے ہیں ،خوشامد اور دربار داری صرف ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جو بصیرت و دانشمندی سے محروم ہو یا پھر خطرناک حد تک ہوشیار و عیار، کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید ہی سہی، وزیر اعظم کوصحت کے شعبے کی اہمیت اور غرباء کی حالت زار کا خیال تو آیا؟ لیکن سچ یہ ہے کہ حکومت کی عوامی خدمت کے حوالے سے کارکردگی جانچنے کے دو پیمانے ہوتے ہیں اول تعلیم دوم صحت۔ یہ بنیادی ضروریات ہیں جبکہ معاشی خوشحالی، روزگار، احساس تحفظ، ملکی استحکام، انسانی مساوات اور قانون کی حکمرانی بھی اسی قدر اہم ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کا روشن مستقبل اعلیٰ ومعیاری تعلیم، سائنسی اور ٹیکنالوجی ترقی و تحقیق میں مضمر ہے۔ معیار تعلیم و تحقیق کا معاشی صورت حال سے گہرا تعلق ہے جس کی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے میدان میں تیزی سے تنزل کا شکار ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو نہ اس کا احساس ہے اور نہ ویژن۔ حکمران اور قوم سی پیک کے خواب کی تعبیر کے ذریعے معاشی خوشحالی کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو انشاء اللہ ثمر آور ہوگی لیکن کبھی سوچا آپ نے کہ 46ارب کی سرمایہ کاری میں سے14ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ان سے ہماری خوشحالی میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ سی پیک کے منصوبے میں کمائی والے منصوبوں کو ترجیح دے کر اور جلد مکمل کرکے شاید صورتحال قدرے بہتر ہوسکتی تھی۔ دعا ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے اختلافات کو حکومت نیک نیتی اور حکمت عملی سے حل کرے۔
بات دور نکل گئی۔ کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ وزیر اعظمکےعوام کی غربت و زبوں حالی اور خوف الٰہی کے تحت نکلے آنسو ہمارے لئے خوشی کے آنسو ہیںکہ چلو انہیں احساس تو ہوا، انہیں یوم حساب تو یاد آیا اور انہیں عاقبت اور جوابدہی کا خیال تو آیا ورنہ حکمران اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ یہ توفیق اللہ پاک کی دین ہے۔ میاں صاحب نے زندگی کا ایک حصہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گڑگڑاتے بسر کیا ہے۔ یہ جاگ وہیں لگتی ہے جو اقتدار کے نشے میں دب جاتی ہے لیکن ختم کبھی نہیں ہوتی۔ آزمائش کے لمحوں میں یہ جاگ پھر جاگ اٹھتی ہے۔ اندیشہ ہے فقر کی بات لمبی ہوجائے گی اس لئے ایک واقعہ سنا کر اجازت لیتا ہوں۔ تزکار چشتیہ ایک معیاری کتاب ہے جو سلسلہ چشتیہ پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جو میاں نواز شریف وزیر اعظم اور بادشاہ وقت کے آنسو دیکھ کر یاد آیا۔ شاہ ابراہیم بلخ کے بادشاہ تھے اور بادشاہت کے باوجود خوف الٰہی کی دولت سے مالا مال تھے۔ ایک شام تخت پہ بیٹھے عاقبت کے خوف سے بھیگی آنکھیں خشک کررہے تھے کہ چھت پہ بھاری قدموں کی آواز آئی۔ وہ حیران ہوئے کہ دربانوں کی موجودگی میں محل کی چھت پہ کون آگیا ہے۔ کھڑکی کھولی اور پوچھا اوپر کون ہے؟ جواب آیا میرا اونٹ گم ہوگیا ہے اسے تلاش کررہا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ اونٹ چھت پہ کیسے تلاش کررہے ہو؟ جواب آیا اگر تم تخت شاہی پر بیٹھ کر اللہ کو تلاش کرسکتے ہو تو میں بھی چھت پر اونٹ تلاش کرسکتا ہوں۔ یہ سنتے ہی باطن میں انقلاب آگیا اور حالت غیر ہوگئی۔محل بادشاہت چھوڑ کر رات کی تاریکی میں جنگلوں میں چلے گئے اور ایک چرواہے کو اپنا لباس دے کر اس کا پھٹا پرانا لباس پہن لیا۔ پھر وہ حضرت خواج ابن ایازؓ کے مرید ہوئے ۔ حضرت خواج سلسلہ چشتیہ میں حضرت حسن بصریؓ کے بعد تیسرے نمبر پہ آتے ہیں۔سلوک اور روحانیت کی منازل طے کرکے بلخ کے بادشاہ شاہ ابراہیم سلسلہ چشتیہ میں ابراہیم بلخیؓ کہلائے جو ولی کامل تھے۔ بادشاہ ہزاروں ہوچکے جن کا آج نام بھی معلوم نہیں لیکن شاہ ابراہیمؓ روحانی تاریخ میں ابد تک زندہ رہیں گے، رحمۃ اللہ علیہ کہلائیں گے اور ان کا مزار خلق خدا کی عقیدت کا مرکز رہے گا۔ سوچئے بادشاہی امر ہوتی ہے یا فقیری، اقتدار منافع کا کاروبار ہے یا فقر؟ سچ یہ ہے کہ فقیر ہی اصلی اور سچا بادشاہ ہوتا ہے۔ یہ دنیا کی بادشاہی اور اقتدار تو فریب نظر ہے اور بہت بڑی آزمائش...!!بقول اقبال بادشاہی میں فقیری وہ مقام ہے جو بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوتا۔


.
تازہ ترین