• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں تمام دنیا کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی پاکستان میں ذہنی صحت کا عالمی دن منایا تھا۔ اب تو یہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہم ممبر ہیں، ممبر ممالک کو مصروف رکھنے کے لئے اقوام متحدہ نے سال کے تین سو 65 دن کسی نہ کسی حوالے سے منانے کے لئے فہرست جاری کردی ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق روزانہ کوئی نہ کوئی دن مناتے رہتے ہیں اور وہ دن ہم بڑی دھام دھوم سے مناتے ہیں۔ اگر ساس کا دن ہو تو اس روز پورے پاکستان میں طرح طرح کی ساسیں سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ ان میں موٹی، دبلی، لمبی، ٹھگنی ساسیں شامل ہوتی ہیں، جو ساسیں ادھیڑ عمر کی ہوتی ہیں یا پھر بوڑھی ہوتی ہیں وہ بیوٹی پارلر سے ہو کر ساس سے متعلق ہونے والی تقریبات میں آتی ہیں اور اپنی بہو بیٹیوں سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے بوڑھے ہونے کا بھانڈا تب پھوٹتا ہے جب تقریب کے دوران اونگھتے اونگھتے وہ سوجاتی ہیں۔ یہ محض ایک مثال تھی، ہم بہروں کا عالمی دن بھی بڑی دھام دھوم سے مناتے ہیں۔ اس روز ہم بہروں کو تقریبات میں مدعو کرتے ہیں اور ان کو تقریریں اور قومی نغمے سناتے ہیں۔
میرے کہنے کا مطلب ہے کہ پچھلے دنوں ہم نے ذہنی صحت کا عالمی دن بڑی دھام دھوم سے منایا تھا بلکہ دھوم دھام سے منایا تھا۔ ذہنی صحت کا تعلق براہ راست ہماری کھوپڑی میں رکھے ہوئے بھیجے سے ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ہمارے بھیجے میں گڑبڑ ہوجائے تو پھر ہماری پوری زندگی میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ جس لڑکی سے ہم شادی کرنا چاہتے ہیں اس لڑکی کی شادی آپ کے رقیب روسیاہ سے ہوجاتی ہے، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو پھر آپ کی بیوی گھر چھوڑ کر میکے چلی جاتی ہے۔ اگر آپ بال بچوں والے ہیں اور آپ کے بچے ماشاء اللہ جوان اور خودکفیل ہیں تو پھر وہ آپ کو گھر سے نکال دیتے ہیں یا پھر بوڑھوں اور خبطیوں کی آماجگاہ میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو پھر آپ زیادہ تر عبداللہ شاہ غازی کے مقبرے کے آس پاس دکھائی دیتے ہیں اور اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں تو پھر آپ داتا کے دربار کا لنگر کھارہے ہوتے ہیں۔ آپ بجا طور پر مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ اتنی دیر سے جو میں ناقابل فہم باتیں کئےجارہا ہوں کیا میں خود بھی ذہنی صحت میں خرابی کا شکار رہ چکا ہوں؟ میرا سادہ سا جواب ہے، میرے بھائیو، بہنواور بچو، نہیں، قطعی نہیں۔ میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ ذہنی صحت کا تعلق کھوپڑی میں پڑے ہوئے بھیجے سے ہوتا ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری کھوپڑی میں بھیجے کا نام و نشان نہیں ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کی کھوپڑی میں بھیجا نہ ہو؟
ہاں، یہ ممکن ہے، ایک مرتبہ میرے سر میں دو تین گولیاں لگی تھیں، میں مرا نہیں تھا مجھےاسپتال لایا گیا تھا۔ میرے سر سے گولیاں نکالنے کے لئے ڈاکٹروں نے میری کھوپڑی کھول دی۔ وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ میرے سر میں بھیجا نہیں تھا۔ بھیجے کے بجائے میرے سر میں چڑیا کا گھونسلا رکھا ہوا تھا اور گھونسلے میں تین گولیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سر میں گولیاں لگنے کے باوجود اس شخص کے نہ مرنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ اس کے سر میں بھیجا نہیں ہے۔ میں جو آپ کو خوش و خرم، ہنستا کھیلتا اور شادباد منزل مراد دکھائی دیتا ہوں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ میری کھوپڑی میں بھیجا نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جس کی کھوپڑی میں بھیجا نہیں ہوتا وہ مطمئن اور خوشگوار زندگی گزارتا ہے۔ وہ پچاسیوں ٹیلیوژن چینلوں سے ایک جیسے پروگرام دیکھتے دیکھتے اور ایک جیسی سیاسی تقریریں سنتے سنتے پاگل نہیں ہوتا۔ پاگل وہ شخص ہوتا ہے جس کے سر میں ایک عدد بھیجا ہوتا ہے۔
کراچی سے ایک سو میل دور کوٹری کے چھوٹے سے شہر میں دیوان گدومل مینٹل اسائلم ہے، جسے عام طور پر پاگل خانہ کہا جاتا ہے۔ وہاں میرا آنا جانا رہتا ہے۔ ایک عرصے سے میرے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے دور کا ایک دوست عبدالرحیم وہاں مقیم ہے، ہم سب اسے رحیم کہہ کربلاتے تھے۔ بڑا ہنس مکھ اور زندہ دل ہوتا تھا، ایک یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر تھا۔ رحیم کے لئے مصیبتوں کی ابتدا مسجد میں جمعہ کے خطبہ کے دوران ہوئی۔ امام صاحب سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی فضیلتیں بیان کررہے تھے۔ رحیم نے اٹھ کر پاگل پن میں کہا مولوی صاحب سورج نہ طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب ہوتا ہے، اپنے محور پر گھومتے ہوئے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے جس سے سورج ہمیں طلوع ہوتے ہوئے اور غروب ہوتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ مولوی صاحب آپے سے باہر ہوگئے کہا یہ تم نہیں تمہارے اندر بیٹھا ہوا ابلیس بول رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ نمازی تمہارے چیتھڑے کردیں مسجد سے نکل جا۔
رحیم مسجد سے نکل آیا، مطالعے میں مصروف اور چپ چپ رہنے لگا۔ ایک مرتبہ وہ ایک عالم کے پاس گیا جو روحانی مسائل کا حل نکالتے تھے۔ رحیم نے عالم سے کہا میرے دل پر تالے لگے ہوئے ہیں تاکہ میں اللہ کی ہدایات سمجھنے سے قاصر رہوں۔ عالم نے کہا تیرے دل پر تالے شیطان ملعون نے لگائے ہیں، یہ تعویز گلے میں پہن لے تیر ےدل پر شیطان نے جو تالے لگائے ہیں، وہ ہمیشہ کے لئے اتر جائیں گے اور تو اللہ کی ہدایات سے مستفیض ہوتا رہے گا۔ پاگل رحیم نے کہا میرے دل پر تالے اللہ تعالیٰ نے لگائے ہیں۔ رحیم نے اپنی بات ثابت کرنے کیلئے حوالے دئیے تو عالم طیش میں آگئے۔ عالم نے کہا میرے جی میں آتا ہے کہ تیرے خلاف توہین کا پرچہ کٹوا کر تجھے موت کے گھاٹ اتروادوں مگر تو مجھے پاگل لگتا ہے،تیرا ٹھکانا پاگل خانہ ہے۔
تب سے رحیم دیوان گدومل مینٹل ہاسپٹل اینڈ اسائلم کے پاگل خانے میں ہے۔ میں اکثر اس سے ملنے جاتا ہوں، پاگل خانے میں اس نے اپنے نام میں ترمیم کی ہے۔ اس پاگل شخص نے اپنا نام رکھا ہے رام رحیم۔ ملاقات کے بعد جب میں اس سے رخصت ہونے لگتا ہوں، تب وہ دیوانگی کی حالت میں کہتا ہے جب بھی تمہاری ملاقات اللہ سے ہو تو اللہ سے ضرور پوچھنا کہ اپنی ہدایات سے مجھے محروم رکھنے کے لئے اس نے میرے دل پر تالے کیوں لگائے ہیں، اور میرے لئے عبرتناک سزا کیوں تجویز کررکھی ہے؟


.
تازہ ترین