• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد بڑی ٹھنڈ اے حلوہ پوڑی بند اے
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں:اسلام آباد بند نہیں کرنے دیں گے انہوں نے بھرپور واعظانہ و ناصحانہ انداز میں کہا:مت جلو، مت لڑو، تمہاری سوچ اچھی ہے نہ نیت، ہمیشہ انتظار کرتے رہو گے، خیرات کے پیسے کھا گئے، حساب تک نہیں دیا۔ ہمیں وزیر موصوف کی تقریر دلپذیر سے یہ سمجھ میں آیا کہ اسلام آباد تم نہیں ہم خود بند کریں گے، ظاہر ہے ڈار صاحب اسلام آباد کو کھلا رکھیں گے تو یہ حال ہو سکتا ہے ’’بازی بازی باریش بابا نیم بازی‘‘ (کھیلتے کھیلتے بابا کی داڑھی سے کھیلنے لگے) اس لئے اسلام آباد تو ہر حال میں بند ہو گا، کیونکہ حکومت کو دفاع کا حق حاصل ہے اور خان صاحب کو یلغار کی اجازت نہیں، دونوں صورتوں میں ’’اسلام آباد، بڑی ٹھنڈ اے، حلوہ پوڑی بند اے‘‘ ہم عمران خان سے پوچھتے ہیں کہ یہ واقعی کوئی معرکۂ دارو رسن ہے یا مظاہرہِ مکر و فن ہے، حکومت چھین کر آنا چنگیزی اور حکومت عوامی رائے کے ذریعے حاصل کرنا جمہوریت ہے، اسلام آباد بند کرو مشن کی تیاری کے دوران خان نے کسی مرحلے پر تو کہا ہو گا:’’مروا نہ دینا‘‘ جو معرکہ برائے حصول وزارتِ عظمیٰ وہ سَر کرنے چلے ہیں، بقول خان تحریک انصاف ایکٹر شیخ رشید بکرا کشتن روزِ اول مہم ہے، کیونکہ ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ اسحاق ڈار نے درست ہی کہا ہو گا تمہاری سوچ اچھی ہے نہ نیت اور خود اُن کی کم از کم سوچ تو اچھی ہے، یہ بڑا انکشاف ہے کہ خان، خیرات کے پیسے کھا گیا، اور کوئی بارات کے پیسے کھا گیا۔ یہ نہ ہو کہ ڈی جے کی دھن ہو رقص خوباں نہ ہو، ایک چلتی جمہوری حکومت کو رخصت کرنا، دارالحکومت کو تالا لگانا تو سیدھا سیدھا فوجداری ہے، کیا خوب اندازِ مارا ماری ہے، سیاسی تحریک کو جنگی تحریک بنانا قتل جمہوریت ہے، یہ چلن یہیں روک دینا چاہئے ورنہ کسی سر پر پگڑی باقی نہیں رہے گی۔
٭٭٭٭
بیک وقت دو ’’تبدیلیاں‘‘
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے:قوم انقلاب کی تیاری کرے، اسلام نافذ کر کے پاکستان کو تبدیل کر دیں گے، پہلے تو ہمیں یہ گمان گزرا کہ سراج الحق نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے، پھر ان کی ٹوپی اور ریش مبارک یاد آئی تو ایک دم میرا ہیجان تھم گیا، دل کو کچھ قرار آیا کہ نفاذ اسلام اور اس کے ذریعے تبدیلی ہو سلوگن تقریباً سو سال کا ہو گیا ہے، جماعت اسلامی مسافروں سے بھری وہ بس ہے جو ایک عرصے سے ٹرمینل پر اسٹارٹ کھڑی ہے، دو قدم آگے جاتی ہے تو مسافروں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں، پھر دو قدم پیچھے تو مسافر ناامیدی کی تصویر بن جاتے ہیں، شاید جماعت کی پالیسی ہے ’’نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن‘‘ (کھڑے ہونے کی جگہ ہے نہ چلنے کی) وہ کہتے ہیں پاکستان عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پنجوں میں ہے، اس کو جماعت اسلامی چھڑائے گی، حالانکہ ان کو کیوں نظر نہیں آتے سارے پنجے مقامی ہیں، باہر والے تو ہماری نا اہلی دیکھ کر اپنے مقاصد کے لئے متحرک ہوتے ہیں، قوم پہلے ہی انقلاب شکم کا شکار ہے، جب غریب عوام کی انتڑیاں قل ھواللہ بول اٹھیں تو اس سے بڑی مقدس دہائی کیا ہو گی، اب وہ انقلاب کی تیاری کریں کہ اگلے مہینے کے یوٹیلیٹی بلز کی تیاری کرے، اس لئے تو ہم اکثر کہتے ہیں؎
نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے انقلاب کی سوجھی ہے ہم بیزار بیٹھے ہیں
اور زیادہ تنگ نہ کر پپو یار! والسلام۔
٭٭٭٭
قصور کسی کا نہیں نور جہاں کا ہے
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا قصوراسپتال کا اچانک دورہ، ایم ایس معطل، پی ٹی آئی کسی کمیشن کو مانتی ہے نہ عدالت کو۔ معذرت کے ساتھ انسان خطا کا پتلا ہے، ہم نے یہ خبر یوں پڑھی وزیر اعلیٰ کا قصور،اسپتال کا اچانک دورہ، ایم ایس معطل، ایک منٹ سوچتا رہا کہ یہ کونسا اسپتال ہے اور اس کا دورہ وزیر اعلیٰ کا قصور کیسے بن گیا، خبر کو تیسری بار پڑھا تو معلوم ہوا کہ لفظ قصور کے بعد مجھے جیسے ’’کوما‘‘ نظر آیا اور وقفہ کر کے پڑھا تو دورہ وزیر اعلیٰ کا قصور بن گیا، بہرحال قصور ملکہ ترنم کا بلھے شاہؒ کا شہر ہے، اور یہ دو نام ایسے ہیں کہ یاد دلا دیتے ہیں؎
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا!
الغرض آمد برسر خبر کہ وزیر اعلیٰ نے حسب معمول قصور اسپتال کا دورہ کر کے اس کا ایم ایس معطل کر دیا، ضرور اسپتال، کانجی ہائوس بنا دیا گیا ہو گا، شہباز کرے پرواز تے کردے کئی معطل، ان کی بارگاہ میں کئی بسمل کئی بے جاں ہوں گے، بشرطیکہ انہوں نے کوئی سنگین ہیرا پھیری کی ہو، اسپتالوں کو دیکھ لیں تو گویا سارے پاکستان کو دیکھ لیا، ڈاکٹر نرس قہقہے لگاتے چائے کافی کے گھونٹ، پیتے اور مریض وارڈوں میں کورس میں آہ و فغاں کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کوئی بدبو میں سوتا ہے تو خوشبو میں جاگ جاتا ہے، اسپتال والے اور ان کے در پر پڑے بے یارو مددگار مریضوں کے خراٹوں کا سبب یہی ہے، بہرحال وزیر اعلیٰ پنجاب ایک ٹیم بنائیں جو صوبے بھر کے اسپتالوں کی جامع رپورٹ ان کو ہر پندرہ روز بعد پیش کرے، اور وہ کبھی کبھی ان رپورٹوں کی بھی تحقیق تفتیش کر لیا کریں کیونکہ: ایک ضامن چاہئے ضامن کے لئے!
٭٭٭٭
ایک اور شکار
....Oڈبل تنخواہ لینے والے 600سرکاری ملازمین بے نقاب مگر پاکستان میں تو نقاب پر کوئی پابندی نہیں!
....Oاسحاق ڈار:ملک قرضوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا،
کیا حکمرانوں نے اپنا نام ملک رکھ لیا؟
....Oسراج الحق:نواز شریف غریب کی حالت پر نہیں اپنے انجام کو دیکھ کر رو رہے ہیں،
گویا انجام دیکھنے سے پہلے ہی رو پڑے، اور سراج الحق صاحب قبلہ یوں ہی الزام نہ لگا دیا کریں ممکن ہے عالم خواب میں نواز شریف کا نام انجام شریف ہو جسے آئینے میں دیکھ کر وہ رو پڑے ہوں۔
....Oپرویز رشید:عمران عدالت گئے ہیں تو اس پر اعتماد بھی کریں،
کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے
....Oعبدالعلیم خان:سرکاری حربوں کا توڑ کریں گے،
سنا ہے آپ کالے جادو کے ماہر ہیں اور سرکاری جنات کو قابو کر سکتے ہیں!
....Oپنجاب حکومت کا ان دنوں آڈٹ پر بڑا زور ہے یہ اچھی بات ہے، ایک سیکٹر نجی سیکورٹی کمپنیوں کا ہے جس کا آج تک کوئی آڈٹ ہوا نہ ٹیکسیشن والوں نے کوئی پرسش کی، یہ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز مہیا کرتے ہیں، مگر ان کے سسٹم کا الٹرا سائونڈ حکومت نے کبھی نہیں کیا، اسحاق ڈار توجہ فرمائیں۔


.
تازہ ترین