• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ہم انگریزی فلمیں دیکھ رہے ہیں اور انگریزی گانے سن رہے ہیں۔ ہندوستانی فلموں، گانوں اور ڈراموں پر پابندی کے بعد اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ٹیلی وژن کے انٹر ٹینمنٹ چینل خدا جانے کہاں کہاں سے تیسرے درجے کی نہایت ہی عامیانہ انگریزی فلمیں لے آتے ہیں جو وہ چوبیس گھنٹے دکھاتے رہتے ہیں۔ اب یہ فلمیں کون دیکھتا ہے؟ بلکہ کوئی دیکھتا بھی ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کم سے کم میرے جیسا فلموں کا رسیا تو انہیں نہیں دیکھ سکتا۔ بھلا غیرمعیاری ویسٹرن فلمیں، یا جادو اور بھوت پریت کی فلمیں کون دیکھ سکتا ہے اور کب تک دیکھ سکتا ہے؟ اس لئے لوگوں نے یہ چینل دیکھنا ہی بند کر دیئے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی گانوں پر پابندی لگنے کے بعد ایف ایم ریڈیو والوں نے شروع میں تو پاکستانی فلموں کے گانے سنانا شروع کئے تھے۔ مگر اب پاکستانی اور انگریز ی گانوں کا ایک ملغوبہ ہے جو یہ ریڈیو سنا سنا کر ہمارے کانوں اور ہمارے ذوق کا امتحان لے رہے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں کے بارے میں اس لئے میں کچھ نہیں کہتا کہ میرے گھر میں پہلے بھی پاکستانی ڈرامے ہی دیکھے جا تے تھے اور اب بھی دیکھے جارہے ہیں۔ جب سے پاکستان اور ہندوستان کے کچھ ٹی وی چینلز نے اپنے ڈراموں کا تبادلہ شروع کیا تھا اس کے بعد سے ہمارے ڈرامے ہندوستان میں بھی ان کے اپنے ڈراموں سے زیادہ دیکھے جا رہے تھے۔ اس کی گواہی تو جاوید اختر اور شاہ رخ خاں تک نے دی ہے۔ لیکن ہماری فلمیں ہمارے سینما گھروں میں بھی زیادہ نہیں چلتیں ۔ کیوں؟ یہ تماشائیوں سے پوچھ لیجئے۔
مگر ہم صرف ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو کوہی کیوں رو رہے ہیں، اپنے سینما گھروں کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ وہ سینماگھر جو چند ہفتے پہلے تک تماشائیوں سے بھرے ہو تے تھے اور جہاں ٹکٹ ملنا دشوار ہو جاتا تھا، اب خالی ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس وہ فلمیں ہی نہیں ہیں جو تماشائیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھیں۔ وہ بھی اب انگریزی فلمیں دکھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مان لیا کہ ان میں عام پسند انگریزی فلمیں بھی ہوتی ہیں، لیکن اس ملک میں کتنے تماشائی ہیں جو ان فلموں کے انگریزی مکالمے سمجھ سکتے ہیں؟ نتیجہ، خالی سینما گھر۔ ابھی یہ چند سال پہلے کی ہی تو بات ہے کہ ہندوستانی فلموں کی نمائش شروع ہوتے ہی کتنے ہی سینما گھر نئی عمارتوں اور نئی مشینوں سے آراستہ ہونے لگے تھے۔ ان فلموں کی مقبولیت کی وجہ سے ہی ساری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی بڑے بڑے سینما گھروں کے بجائے چھوٹے چھوٹے سینما گھر بنانے کا رواج شروع ہوا۔ اس سے پہلے جہاں سینماگھر گرا کر بڑے بڑے پلازا بنائے جا رہے تھے وہاں اب ہر بڑے پلازا میں ڈوپلیکس سینما گھر بنائے جانے لگے تھے۔ یہ سب تبدیلیاں مفت میں تو نہیں ہوگئی ہیں۔ ان پر بھاری سرمایہ خرچ ہوا ہے۔ اور وہ بھی کروڑوں اور اربوں میں۔ فلموں کی کامیابی کی وجہ سے ہی بڑا سرمایہ اس کاروبار کی طرف آنے لگا تھا۔ ادھر تماشائیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور ادھر سرمایہ اس ہاتھ سے اس ہاتھ میں جا رہا تھا۔ ہماری معیشت ترقی کر رہی تھی۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں معیاری فلمیں بنانے کی طرف جو توجہ دی گئی اس کی وجہ بھی ہندوستانی فلموں کا مقابلہ ہی ہے۔ اس مقابلے کے لئے ہی ہمارا پڑھا لکھا جوہر قابل سامنے آیا۔ اور بڑا سرمایہ بھی اس طرف متوجہ ہوا۔ پچھلے چند سال میں ہم نے جو فلمیں بنائی ہیں ان میں کئی ایسی ہیں جو اپنے موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے معیاری فلمیں کہی جا سکتی ہیں۔
لیکن اب یہ گاڑی چلتے چلتے رک گئی ہے یا روک دی گئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس میں ہمارا قصور نہیں ہے۔ سارا قصور ہندوستان کی انتہاپسند حکومت کا ہے۔ اس نے نفرت کی سیاست کو جو ہوا دی ہے اس نے ہندوستانی سماج کے ایک بڑے حصے میں جنگی جنون پیدا کر دیا ہے۔ سیاسی لڑائی ثقافت کے میدان تک بھی پہنچ گئی ہے۔ کل تک جو پاکستانی فنکار وہاں سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے تھے، اب انہیں وہاں سے نکالنے اور ان کی فلموں پر پابندی لگانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ فواد خاں کی فلم کو بھی کئی شرطوں کے ساتھ ریلیز کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ یہ فیصلے صرف ایک گروہ کر رہا ہے۔ بمبئی کا انتہاپسند شیوسینا کا گروہ۔ بمبئی بلکہ سارے مہاراشٹر پر اس فاشسٹ گروہ کا قبضہ ہے اور یہی فلم سازی کا مرکز بھی ہے۔ مگریہ گروہ آج تو یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ وہ تو ہمیشہ سے یہی کام کرتا چلا آرہا ہے۔ لیکن اس کا مقابلہ کر نے والے بھی تو وہاں موجود ہیں جہاں پاکستانی فن کاروں کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں وہاں ان کے حق میں بھی بات کر نے والے وہاں کم نہیں ہیں۔ اس لئے ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ پیمرا نے ہندوستانی فلموں پر جو پابندی لگائی ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ یوں تو پیمرا کے چئیرمین نے یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کی ہے کہ یہ پابندی دونوں ملکوں میں موجودہ تلخی پیدا ہونے سے پہلے ہی موجود تھی۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ اس طرح ہم نے ان کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ مگرغصے میں ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح ان کا نقصان تو کم ہو گا ہمارا نقصان زیادہ ہو گا۔ یہ میں فلموں کے بارے میں کہہ رہا ہوں، ڈراموں کے بارے میں نہیں۔ ہمارے تو سینماگھر خالی ہو گئے۔ ہماری معیشت کا جو پہیہ تیزی سے چلنا شروع ہوا تھا وہ یک دم رک گیا۔ ذرا سو چئے،اگر وہ پاگل پن پر اتر آئے ہیں تو کیا ہمیں بھی پاگل ہوجانا چاہئے؟ ہمیں تو انہیں دکھانا چاہئے کہ دیکھو، نفرت تم پھیلا رہے ہو، ہم تو امن اور بھائی چارہ چا ہتے ہیں اور پھردونوں ملک جانتے ہیں کہ یہ تلخی اور یہ نفرت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ آخرکار ہمیں بات چیت کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ اس لئے فلموں اور فن کاروں پر پابندیاں لگا کر ہم ہمیشہ کے لئے عوامی رابطے بند نہیں کر سکتے اور بھائی، ہمیں تو اپنے سینماگھر بھی چلانا ہیں، ان کے مقابلے میں اپنی فلمیں بھی بنانا ہیں اور اپنی معیشت کو بھی آگے بڑھانا ہے۔


.
تازہ ترین