• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں جب بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے کونسلر اور چیئرمین منتخب ہوئے تو انہوں نے بڑے زور و شور سے چند دن کراچی میں صفائی مہم چلائی تھی متحدہ کے کراچی میں موجود قائدین فاروق ستار، عبدالرئوف صدیقی اور دیگر رہنمائوں نے خود صفائی مہم کی قیادت کی بس چند روز اور چند جگہ جہاں ان کے ساتھ برقی ذرائع ابلاغ جاسکتے تھے اور پھر ٹائیں ٹائیں فش، کچرا وہیں کا وہیں رہ گیا فوٹو سیشن ہی کہا جاسکتا ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ان افراد اور ادارے کا کہنا ہے کہ کراچی دو ڈھائی کروڑ کی آبادی کا شہر ہے اس شہر میں ہر روز تقریباً سو سے پچاس ٹن کوڑا کرکٹ یعنی کچرا بنتا ہے جو کچرا کنڈی میں ڈالا جاتا ہے اسے اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام کوئی آسان نہیں اس کے لئے بڑے وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہے جو فی الحال بلدیہ کراچی کو میسر نہیں۔
جب مذکورہ حکومت میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی آئی اور قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ صاحب مسند اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ میں ترجیحی بنیاد پر کراچی کو کچرے سے صاف کردوں گا لیکن ڈھاک کے وہی تین پات، چند دن کی سرگرمی اور نمائشی مہم کے بعد کچرا وہیں کا وہیں رہا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ جو کام بالکل رکا ہوا تھا اور کچرا ڈھیروں ڈھیر جمع ہو رہا تھا اس کی کچھ نہ کچھ مقدار کم ہونے لگی لیکن مکمل صفائی ممکن نہیں ہوسکی اور وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ان کے حکم صفائی کا کیا حشر ہوا، مراد علی شاہ صاحب آپ کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ کام چاہئے کتنے ہی لوگ کر رہے ہوں لیکن ہمیشہ کریڈٹ کام کرانے والے کو ہی ملتا ہے اگر آپ کے عہد میں کراچی کے مسائل حل ہوپائیں تو یہ کریڈٹ آپ کو ہی ملے گا اگر آپ چاہیں تو یہ سارے مسائل راتوں رات حل ہوسکتے ہیں۔
بلدیہ کراچی کے متعلقہ عملے سے جب بات ہوئی تو ان کے کہنے کے مطابق انہیں حکم تو مل جاتا ہے لیکن وسائل نہیں مہیا کیے جاتے نہ فنڈ دئیے جاتے ہیں ہَوا میں تیر چلائے جاتے ہیں۔ بلدیہ کراچی کی کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کے ورکشاپ میں گزشتہ پانچ سات سال سے خراب ہونے والی گاڑیوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کچھ گاڑیاں تو صرف ڈیزل نہ ملنے کے باعث کھڑی ہیں کیونکہ پمپ والوں نے ڈیزل دینا بند کردیا ہے کہ انہیں کئی ماہ سے بل نہیں ملے تھے اور کچھ معمولی معمولی خرابیوں کے باعث کھڑی ہوئیں اور پھر کھڑی ہی رہ گئیں کیونکہ انہیں ٹھیک کرانے کے لئے متعلقہ محکمہ کے پاس فنڈز نہیں تھے یوں اس ورکشاپ میں مکمل ناکارہ اور جزوی ناکارہ گاڑیاں جمع ہوتی رہیں جن کی تعداد تقریباً دو سو پچاس کے لگ بھگ ہے۔ اب ان گاڑیوں کا حشر نشر ہو چکا ہے جو تھوڑی سی رقم سے درست ہوسکتی تھیں لیکن اب سب کی سب کچرا بنا کر کچرے میں پھینک دی گئی ہیں۔ اربوں روپے کا سرمایہ محکمہ اور حکومت سندھ کی ہٹ دھرمی کے باعث مٹی میں مل گیا ہے عملہ بھی وسائل نہ ہونے اور گاڑیوں کے درست نہ ہونے کے باعث بے کار بیٹھے بیٹھے ناکارہ کام چور ہوگیا ہے۔ کراچی کی صفائی یعنی کچرا اٹھانے کے لئے کم از کم ڈیڑھ دو سو گاڑیوں، ٹریکٹر ٹرالیوں اور ڈمپر کی ضرورت ہے جو روزانہ دن میں دو بار ہر کچرا کنڈی سے کچرا اٹھائیں اور عملے سے کام لینے اور ان کی مناسب نگرانی کرنے والا عملہ بھی پوری طرح دیانت دار اور تجربہ کار ہو اب تک تو یہ ہوتا رہاہے کہ اگر کسی یوسی کونسل میں ڈیڑھ سو افراد صفائی مہم کے لئے کام کرتے تھے تو اس میں سے صرف ستر پچھتر ڈیوٹی پر حاضر ہوتے ہیں باقی کی تنخواہیں متعلقہ محکمہ آپس میں تقسیم کرلیتا ہے یوں بے ایمانی، بد عنوانی کے باعث شہر کی صفائی مہم بھی آدھی ادھوری رہتی تھی۔ ایسا ہی مسئلہ ڈرینج لائن کی صفائی اور بحالی کا ہے وہاں بھی افرادی قوت اور فنڈز نہ ملنے کی شکایات ہیں اس سبب اگر کہیں لائن بیٹھ جاتی ہے اور پانی نشیبی جگہ سے ابلنے لگتا ہے تو اسے درست کرنے والا کوئی نہیں اہل محلہ شکایات کرتے رہیں لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوتی ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز ہی نہیں ہیں کہ آپ کی لائن تبدیل کریں یا جزوی طور پر درست کریں۔
بلدیاتی اداروں کو اگر فعال کردیا جائے تو یقین ہے کہ کبھی نہ کبھی تو کراچی صاف ستھرا بن سکے گا متعلقہ عملے کے مطابق حکومت جب تک بلدیہ کو خصوصی فنڈز برائے ٹرانسپورٹ یعنی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں اور لوڈ کرنے والے ڈمپر خریدنے کا انتظام نہیں کرے گی تو کچرا کیسے صاف ہوگا۔ اب بلدیاتی اداروں کے افراد کی تنخواہیں ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔ ہاں اگر حکمران اور خصوصاً نئے وزیر اعلیٰ جناب مراد علی شاہ صاحب چاہیں اور ذاتی دلچسپی لے کر ایک بڑا خصوصی فنڈزجاری کردیں تو بھی اس شہر کو صاف کرنے میں کئی ماہ درکار ہوں گے کیونکہ کام کے لئے کار آمد گاڑیوں کی درآمد ہوگی جس میں کئی ماہ لگیں گے پھر اتنی بڑی صفائی میں بھی وقت درکار ہوگا لیکن یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب سرکار فنڈز فراہم کرے گی۔ ایک تجویز یہ بھی متعلقہ عملے کی طرف سے دی گئی ہے کہ اگر اس کچرا گھر میں کھڑی تمام ناکارہ گاڑیوں کو نیلام کردیا جائے تو دو فائدے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ کافی بڑی رقم اس نیلام سے حاصل ہوسکے گی دوسری یہ کہ نئی آنے والی گاڑیوں کے لئے جگہ فراہم ہوسکے گی۔ ملنے والی رقم سے نئی گاڑیاں خریدی جا سکیں گی۔ ورنہ تو سب ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جائے گا کیونکہ حکمران جماعت نے آنے والے الیکشن کا ڈول ڈال دیا ہے۔ وہ اب آنے والے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے اب ساری توجہ آئندہ الیکشن پر مرکوز ہو رہی ہے حالانکہ انہیں سوچنا چاہئے اس شہر کے رہنے والوں سے انہیں تب ہی ووٹ مل سکیں گے جب وہ ان کی کچھ خدمت بھی کریں لیکن ان کے شہری مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور کریں ورنہ پارٹی دیگر صوبوں کی مانند سندھ میں بھی وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی جس کے وہ سنہرے خواب دیکھ رہی ہے۔ ابھی موقع ہے بلکہ سنہری موقع ہے کیونکہ کراچی اور سندھ کے بڑے اور اہم شہروں کی مقبول جماعت متحدہ قومی موومنٹ جس افراتفری کا شکار ہے۔ اس سے وہ جلد باہر آتی نظر نہیں آرہی کیونکہ اس میں تقسیم در تقسیم کا عمل چل رہا ہے۔ ان کا ووٹر حیران وہ پریشان ہے اور تماشہ دیکھ رہا ہے یہی موقع ہے کہ حکمران جماعت سندھ اس موقع سے اگر فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو تمام بلدیاتی کاموں کو رات دن لگ کر مکمل کرے اور عوام کی شکایت جو بڑی حد تک جائز ہیں کا ازالہ کرے اور عوامی حمایت حاصل کرلے کراچی کے عوام وعدہ کی سیاست سے نکل کر عمل کی سیاست کی طرف دیکھ رہے ہیں اگر حکمراں جماعت ان کے درد کا مداوا کرسکے تو اس سے اچھا وقت ان کے لئے ممکن ہی نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور خصوصاً کراچی، حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص کے لئے خاص طور پر توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔


.
تازہ ترین