• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصاف کی دیوی جسےــ ’’لیڈی جسٹس‘‘ بھی کہتے ہیں، 15ویں صدی کے بعد اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ اب دنیا بھر میں جہاں کہیں انصاف کی دیوی کا مجسمہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ایک ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہوتا ہے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ انصاف اندھا ہوتا ہے۔ مگر عدل و انصاف کی آسانی اورفراوانی میں ہم ایک اور قدم آگے بڑھ گئے اور ہمارے ہاں انصاف اندھا ہی نہیں گونگا، بہرہ اور لنگڑا بھی ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں تو زندہ انسانوں کو ہی سستے انصاف کی سہولت میسر ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں مُردوں کے لئے بھی عدل و انصاف کے ایسے مواقع دستیاب ہیں کہ عدلِ جہانگیری بھی شرما جائے۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک کی سب سے بڑی عدالت سے باعزت بری ہونے والے وہ تین ملزم ہیں جو خود تو مر گئے مگر ریاست ان کا مقدمہ لڑتی رہی۔19 سال پہلے ڈھوک علی حیدر میں محمد اسماعیل نامی شخص کا قتل ہوا، جس کی ایف آئی آر مئی 1997 کو سہالہ پولیس اسٹیشن اسلام آباد میں ملزم مظہر حسین کے خلاف درج ہوئی۔ ایڈیشنل سیشن جج چوہدری اسد رضا نے ملزم مظہر حسین کو سزائے موت سنادی۔ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تو ملزم مظہر حسین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ میں این آر او ، سوئس مقدمات اور توہین عدالت جیسے اہم معاملات کی سماعت ہو رہی تھی۔ قانونی موشگافیوں اور پیچیدہ ترین آئینی پٹیشنز کی بھیڑ میں ایک عام قیدی کی فریاد کون سنتا۔ رابرٹ فراسٹ نے عدالتی طریقہ کار سے متعلق کیا خوب کہا ہے ’’کئی ججوں پر مشتمل بنچ کا کام یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کس کا وکیل سب سے اچھا ہے‘‘ جس کا وکیل سب سے تگڑا ہوتا ہے اس کا مقدمہ بھی جلد لگ جاتا ہے اور فیصلہ بھی ہاتھوں ہاتھ آجاتا ہے مگر لاوارثوں کی دادرسی کون کرے۔ مظہر حسین کا مقدمہ بھی فائلوں کے پلندے تلے دب گیا۔ اللہ بھلا کرے جسٹس آصف سعید کھوسہ کا جن پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے اس اپیل کی سماعت کے لئے وقت نکالا اور 6اکتوبر 2016 کو کمزور شہادتوں اور ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر یہ مقدمہ خارج کر دیا اور ملزم مظہر حسین کو باعزت بری کر دیا۔ معزز جج صاحبان اس بات پر بھی کڑھتے رہے کہ ایک بے قصور انسان کی زندگی کے 19سال برباد ہو گئے ،اس کا حساب کس سے لیا جائے؟ کون ذمہ دار ہے اس کی زندگی برباد کرنے کا؟ کس سے کہا جائے کہ اس کی زندگی کے یہ پل لوٹا دے۔ بہرحال ،دیر آید درست آید کے مصداق فیصلہ تو ہوا لیکن جب عدالتی فیصلے کی نقل جیل حکام کے پاس پہنچی تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ مظہر حسین تو دو سال پہلے دوران حراست ہی زندگی کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ اب تعمیل کرانے والا عدالتی ہرکارہ شش و پنج میں ہے کہ اس رہائی کے پروانے کا کیا کرے، کیا اسے مرحوم کی قبر پر چسپاں کر دیا جائے؟
لگتا ہے 6اکتوبر کا دن مُردوں کیلئے ہی مختص تھا کیونکہ اس روز ایک اور ایسے مقدمے کا بھی فیصلہ ہوا جسکی نقل شہر خموشاں بھجوانا پڑے گی۔2فروری2002 کو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے تھانہ صدر میں تہرے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی جس میں ملزم غلام قادر اور غلام سرور پر الزام تھا کہ انہوں نے دیگر ساتھیوں سے ملکر عبدالقادر اور اس کے بیٹے اکمل کو قتل کیا ۔اور بعد میں اپنی بیٹی سلمیٰ کو بھی موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو ٹرائل کورٹ نے تمام شریک ملزموں کو بری کر دیا اور ملزم غلام فرید کو دوبار عمر قید جبکہ ملزم غلام سرور کو تین بار سزائے موت دینے کا حکم دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بنچ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تو ملزموں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔10 جون 2010 کو سپریم کورٹ نے عبدالقادر اور اس کے بیٹے اکمل کی حد تک تو سزا کو برقرار رکھا مگر سلمیٰ کے قتل کا فیصلہ بعد میں سنانے کو کہا۔ اس دوران یہ مقدمہ بھی جوڈیشل ایکٹوازم کی نذر ہوگیا۔ جب میمو گیٹ،پاناما اسکینڈل ،فوجی عدالتوں اور اس جیسے دیگر اہم ترین مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو تو سزائے موت کے منتظر عام قیدیوں کی فریاد کوئی کیسے سنے؟ ان ملزموں کی تقدیر بھی تب جاگی جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ازخود نوٹس لیا اور ان کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ نے اس مقدمہ کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا۔ مقدمہ بہت سیدھا اور سادہ تھا کہ جن کمزور شواہد اور ناکافی ثبوتوں کی بنا پر دیگر شریک ملزموں کو باعزت بری کر دیا گیا ان کی بنیاد پر کسی شخص کو عمر قید یا سزائے موت کیسے دی جا سکتی ہے؟ اور پھر جب عدالت کے سامنے اس مقدمہ کے اکلوتے عینی شاہد کا یہ بیان سامنے آیا کہ جب وہ موقع واردات پر پہنچا تو عبدالقادر اور اس کا بیٹا اکمل قتل ہو چکے تھے تو یہ مقدمہ انتہائی کمزور ہی نہیں بے بنیاد ہو گیا۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملزموں کو باعزت بری کر دیا لیکن جب عدالتی فیصلے کی نقل رحیم یار خان پہنچی تو معلوم ہوا کہ دونوں ملزموں کو 2013 میں بہاولپور جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ بہاولپور جیل رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ باعزت بری ہونے والے دونوں ملزم غلام سرور اور غلام قادر تو زندگی کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں کیونکہ انہیں 13اکتوبر2015 کو پھانسی دیدی گئی تھی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ جب مقدمہ عدالت میں زیرسماعت تھا تو ان دونوں ملزموں کو تختہ دار پر کیسے لٹکا دیا گیا لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل سوال یہ ہے کہ جس شخص کو عمر قید ہوئی تھی اسے کیسے پھانسی دیدی گئی؟ بات دراصل یہ ہے کہ جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا اور اسکے بعد سزائے موت پر پابندی ختم کردی گئی تو کارکردگی دکھانے کے لئے ان دونوں قیدیوں کو بھی لٹکا دیا گیا۔
جب عدل و انصاف کی ایسی فراوانی اور آسانی دیکھتا ہوں تو فیض کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں:
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے


.
تازہ ترین