• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر آنے اور دھرنا لگانے کے علاوہ سسٹم اور حکومت سے نجات پانے اورکرپشن کو ختم کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے مگر وہ موجودہ سسٹم سے نجات پانے کی بجائے اس سسٹم میں رہتے ہوئے اس سسٹم سے نجات پانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ تو ان کی اطراف میں کھڑے دانشورہی بتاسکیں گے کہ اس سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم سے بغاوت کیسے کی جاسکتی ہے۔ بیک وقت سسٹم کی پیروی اور سسٹم سے مخالفت کیسے ممکن ہے۔ یہ بہت ہی متضاد بات ہے اور اس تضاد کے تحت سید وارث شاہ کے قصہ ہیر رانجھا کے کرداروں نے سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم سے بغاوت کے ذریعے اپنی زندگیوں سے نجات پائی تھی۔امرتا پریتم نے کہا تھا کہ؎اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بولتے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھولکتاب عشق کے اگلے ورقے پر یہ بھی تحریر ہوسکتا ہے کہ ہیر اور رانجھے نے شادی بیاہ کے نظام یا سسٹم میں قاضی کی انسٹی ٹیوشن کی مداخلت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس بغاوت میں کامیابی بھی حاصل کی تھی۔ وہ ہیر کے واحد چودھری چوچک سے بھی جیت گئے تھے۔ ہیر کے چچا کیدو کی سازشوں سے بھی بچ گئے تھے پھر ہیر کے زبردستی کے منکوحہ سیدے کھیڑے کے خلاف بھی کامیاب ہوگئے تھے اور سید وارث شاہ کے مطابق قانون کے شاہی دربار میں جیت گئے تھے مگر عدالتی فیصلے کے بعد انہیں قاضی کی انسٹی ٹیوشن کے تابع ہو کر اپنی گرہستی زندگی کا آغاز کرنے کا مشورہ دیا گیا اور رانجھا اپنی برات لینے چلا گیا اور اس کی واپسی پر سب کچھ ختم ہوچکا تھا چنانچہ وہ بھی اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔کتاب عشق کا سیاسی اگلا ورق بھی کچھ ایسی ہی’’ٹریجڈی‘‘ بتاتا ہے جس کے تحت سیاست میں قاضیوں کے سسٹم کی مخالفت میں میدان سیاست میں آنے والے قدم قدم پر کامیابیاں حاصل کرتا چلا گیا مگر اس کامیاب سفر سے انہوں نے ایک موڑ قاضیوں کے اچھرےکی طرف بھی لیا اور اسی روز انہیں پھانسی پر لٹکانے والوں نے پھانسی کا پھندا تیار کرنا شروع کردیا۔ عدالت نے سزا سنانی تھی کہ انہیں اس وقت تک پھانسی پر لٹکایا جائے جب تک ان کی وفات واقع نہیں ہوجاتی۔ انہیں پھانسی پر لٹکایا گیا مگر ان کی وفات نہیں ہورہی تھی، چنانچہ انہیں لٹکائے رکھا گیا۔ یہ اب ہوا ہے کہ انہیں پھانسی کے تختے سے اتار کر دفن کردیا گیا ہے اور یہ سب کتاب عشق کے اگلے ورقے پر لکھی جانے والی حقیقت ہے۔کتاب عشق کے اگلے ورقے کا مطالعہ کرنے اور بین السطور معانی کو سمجھنے والے وقت گزرنے کے ساتھ اگرچہ بہت کم رہ گئے ہوں گے مگر اس حقیقت کا شعور حاصل کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں ہوگا کہ جب کوئی بغاوت کا جھنڈا اٹھا کرنکلتاہے تو اسے اپنی بغاوت کے اصول پر قائم رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو یہ خود کشی کا لمحہ ہوتا ہے اور خود کشی کی یہ کوشش کبھی ناکام نہیں ہوتی ہمیشہ کامیاب رہتی ہے۔ عمران خان کو بھی اپنی تمام کامیابیوں کے بعد اس سسٹم یا نظام میں موجود مصلحت یا مصالحت کے پڑائو سے خبردار رہنے کی ضرورت ہوگی، وہ کتاب عشق کا اگلا ورقہ پھولنے کی خودکشی کے خطرے سے باخبر رہیں۔


.
تازہ ترین