• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلی بارگین کا قانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی،کرپشن کرو پیسے دیکر عہدوں پر واپس آجائو،سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ/نیوز ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے سرکاری ملازمین کی جانب سے قومی خزانےکولوٹنے کے بعدنیب کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے سے قبل لوٹی ہوئی رقوم میں سے کچھ حصہ نیب کو واپس کرکے کلین چٹ لینے اور نوکریوں پر بحال ہونے سے متعلق چیئرمین نیب کو حاصل اختیار ات کے استعمال سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران حکم امتناع جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کو ان اختیارات کے استعمال سے روک دیا ہے اور انہیں آئندہ سماعت پر پچھلے دس سال کے دوران اس قانون کے تحت لوٹی گئی رقوم واپس کر کے ریفرنسز سے جان چھڑانے والے ملزمان کی مکمل تفصیلات عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کرپشن کی رضا کارانہ رقم واپسی کی شق بنانے والوں کو شرم نہیں آئی؟ دیگر ممالک ہم پر ہنستے ہیں کہ کیسے قوانین سے ملک چلایا جارہاہے۔ نیب ان اختیارات کا ستعمال کررہا ہے جو عدالتیں بھی کرنے کی مجاز نہیں، انہوں نے کہا کہ کرپشن کرو، پیسے دیکر عہدوں پر واپس آجائو، نیب میں جاکر کافی کا ایک کپ پئیں، مک مکا کریں ،سارے معاملات طے اور واپس اپنی نوکری پر چلے جائیں، رقم کی رضاکارانہ واپسی پر قسطوں کی سہولت بھی دی جاتی ہے، بدعنوانی میں ملوث عوامی نمائندے عدالتوں کی جانب سے عوامی عہدہ سے نااہلیت سے بچنے کیلئے نیب حکام کے پاس جا کر مک مکا کرلیتے ہیں، جسٹس عظمت سعید کا کہنا ہے کہ نیب بازار میں آوازیں لگاتا ہے، کرپشن کرلو پھر رضا کارانہ واپسی کرالو،تقرریوں کے حوالے سے نیب میں رولز پر بھی عمل نہیں کیا گیا ایک انجینئر کو ڈی جی لگایا ہوا ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا ہے کہ تقرریوں کے حوالے سے چیئر مین نیب کا اختیار ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی زیادہ ہے عدالت اسے آئین کی کسوٹی پر پرکھے گی۔ نیب میں 60فیصد لوگ باہر سے آکر ضم ہوئے۔ ڈیپوٹیشن کا بھی اصول ہوتا ہے پک اینڈ چوز نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ نیب کے ڈھانچے کا جائزہ لے گی 2002سے کیسے ترقیاں اور تقرریاں ہوئیں۔ جو لوگ کنٹریکٹ پر ہوں اور ان کی ملازمت چیئرمین نیب کی خوشنودی پر ہو تو وہ کیسے انڈی پینڈنٹ ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 25 اے کے تحت چیئرمین نیب کو قومی خزانے سے لوٹی گئی رقوم کی ملزمان سے رضاکارانہ واپسی کے اختیار کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار پیش ہوئے تو، جسٹس امیر ہانی مسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جانب سے بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق بدعنوانی میں ملوث 50 فیصد سرکاری اہلکار رقوم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد ملازمتوں پر بحال ہوکر کام کررہے ہیں اورآ پ کہتے ہیں کہ آپ کو علم ہی نہیں ؟اس کا کیا جواز ہے ؟ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ملزمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی میں فرق ہے ، رضاکارانہ واپسی یہ ہو رہی ہے کہ ملزم نے دو کروڑ روپے لوٹے اور پھنس جانے پر رضاکارانہ طور پر 10لاکھ واپس کردیئے اور باقی قسطوں میں دیتا رہے، یعنی دوبارہ جائو کمائی کرو اور ساتھ ساتھ ادائیگی کرتے رہنا، جسٹس امیرہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ تو بدعنوانی کومزید تقویت دینے کے مترادف ہے ، رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے ملزم سرکاری اہلکاراپنے عہدوں پر بحال ہو جاتے ہیں ،دس کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم سے 2 کروڑ لےکر اسے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ، نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے بنایا گیا تھا نہ کہ اسے مزید بڑھانے کیلئے؟آپ نے تو ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کے قواعد ہی باہر پھینک دیئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کی رضا کارانہ رقم واپسی کی شق بنانے والوں کو شرم نہیں آ ئی تھی؟ دیگر ممالک کےلوگ اس قانون پر ہم پر ہنستے ہیںکہ اس طرح کے قوانین سے ملک چلایا جارہاہے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریماکس دیئے کہ نیب بازار میں آواز یںلگاتا ہے،کرپشن کرو اور رضا کارانہ رقم واپس کردو،ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ملزمان کو خط لکھ کر رقم کی رضا کارانہ واپسی کا کہیں اور وہ رقوم واپس کردیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب حکام رضاکارانہ واپسی کی رقم میں سے 25فیصد حصہ خود لیتے ہیں ،جس پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ،پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کروانے والے نیب ملازمین رضاکارانہ واپسی کی رقم میں سے 25فیصد حصہ نہیں لیتے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایف آئی اے میں بدعنوانی کے مقدمات میں پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی کا کوئی تصور نہیں ،لیکن بدعنوانی کے خاتمہ کے حوالے سے ہی کام کرنے والے ادارہ نیب میں رضاکارانہ طور پر رقم واپس دیکر جان چھڑانے کا تصور کیوںہے ، ایک ہی جیسا کام کرنے والے دو اداروں میں یہ امتیاز ی رویہ کیوں ہے؟ جن سرکاری اہلکاروں کی بدعنوانی کے حوالے سے نیب تفتیش کررہاہے ،وہ نہ صرف نوکریاں کررہے ہیں بلکہ انہیں ترقیاں بھی دی جارہی ہیں ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترامیم کرنے کو کہا تھا لیکن اس کے بجائے غیر مناسب ترامیم کردی گئی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ بدعنوانی کرنے والوں میںقومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل ہیں جو عدالتوں سے بچنے کیلئے نیب حکام کے ساتھ مک مکا کرلیتے ہیں کیونکہ اگر معاملات عدالتوں تک چلے جائیں تو انہیں بدعنوانی ثابت ہونے کی صورت میں عوامی عہدہ سے فارغ ہونا پڑ سکتا ہے ، ان اختیارات سے بدعنوانی میں اضافہ اور ادارے کا بیڑا غرق ہوگیا ہے ،بعد ازاں عدالت نے مذکورہ حکم کے ساتھ سماعت7 نومبر تک ملتوی کر دی ۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ تقرریوں کے حوالے سےچیئرمین نیب کا اختیار تو ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی زیادہ ہے۔ 2002 کے بعد سے نیب میں تقرریاں اورترقیاں کیسے ہوئیں؟نیب کے وکیل نے کہا تقرریاں اور ترقیاں قواعد کے مطابق ہوئیں ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کاقواعد پرعمل درآمد حیران کن ہے۔
تازہ ترین