• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی یکجہتی کی ضرورت ، لیفٹ رائٹ کے بجائےرائٹ رانگ کی سیاست کرناہوگی

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سیاسی قیادت نے موحودہ حالات میں قومی یکجہتی کی ضروت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر فیصلے مسلط کرنے سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہوسکتی ،جب تک ملک میں انصاف پر مبنی نظام یقینی نہیں بنایا جاتاقومی یکجہتی قائم نہیں کی جاسکتی،پالیسیوں کا عدم تسلسل ہماری ناکامی کی وجہ ہے،کنٹینر سے ملائشیا کی مثالیں دینے والے بھول جاتے ہیں کہ وہاں مہاتیر محمد22 سال تک برسراقتدار ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام کا مخالف پاکستان کا مخالف ہے۔فیصلے طاقت سے نہیں اصول اور دلیل سے کرنے کے ضررورت ہے، نظریاتی یکجہتی سے بڑھ کر عملی یکجہتی کی ضرورت ہے، یکجہتی کے لئے ہمیںلفٹ اور رائٹ کی بجائے رائٹ اور رانگ کی سیاست کرنا ہوگی۔پوری قوم کو یکجا ہوکر کشمیریوں کا ساتھ دینا ہوگا،سی پی این ای کے زیر اہتمام قومی یکجہتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ملک ستر سال تک مسائل کی دلدل سے نہیں نکل سکا  ،ہمیں اپنے چال چلن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اپنی اقتصادی پالیسوں پر فوکس رکھنا ہو گا ،انہوں نے کہاکہ دشمن ہمیں ختم کرنے کے درپے ہے اور ہم آج دارلحکومت بند کرنے کے چکر میں ہیں انہوں نے کہا کہ چند ہزار لوگوں کو اسلام آباد میں لا کرانتشار پھیلانا جمہوری طریقہ نہیں، اگر پچاس ہزار کا جتھہ لیکر دارالخلافہ بند کرنے کی روایت ڈالی گئی تو کوئی بھی حکومت  چھ ماہ کا عرصہ نہیں نکال سکتی، کسی کو ریاست کو جام کرنے کیلئے طاقت کی دھمکی دینے کا کوئی حق نہیں ،جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج ملک کے ہر طبقے اور ادارے میں قومی یکجہتی کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے  قومی وحدت ہمیشہ غیر متنازعہ رہی ہے ۔ فیصلے طاقت سے نہیں اصول اور دلیل سے کرنے کے ضررورت ہے بدقسمتی سے دنیا پر فیصلے طاقت سے مسلط ہو رہے ہیں ۔ آئین کی طرح اداروں اور پارلیمنٹ کی بھی اہمیت ہے ۔ اتحاد وقت کا تقاضا ہے ۔ آزمائش کا مقابلہ مل کر کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا سیاستدانوں سے یکجہتی کا تقاضا کیا جاتا ہے لیکن شام کو آپ ہی کے چینل اپنے کاروبار کے لئے ملی یکجہتی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے تجویز کیا میڈیا کو اپنا روئیہ درست کرنا ہوگا۔ آپ انتشار پھیلا کر اپنا رزق حاصل نہ کریں ۔ا ب نظریاتی یکجہتی سے بڑھ کر عملی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں حالات خراب ہیں پارلیمنٹ کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے،قوم میں یکجہتی تب آئے گی جب ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے گا۔ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قانون میں برابری کاتصور ہونا چاہیے ماضی میں جنہوں نے متنازعہ قانون بنایا وہی اس کی زد میں آگئے۔حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیے۔ سراج الحق نے کہاکہ یکجہتی کی سخت ضرورت ہے۔ آئین ، عدالتیں، ادارے اور پارلیمنٹ موجود ہے لیکن قوم میں یکجہتی نہیں ،یکجہتی کیلئے ہمیں لفٹ اور رائٹ کی بجائے رائٹ اور رانگ کی سیاست کرنا ہوگی۔ انہوں نے تجویز کیا کہ حکومت کی مدت پانچ سے کم کر کے چار سال کی جائے۔ پیپلز پارٹی کی رہنماء شیریں رحمان نے کہا کہ جن غیر ملکی قرضوںپر اترایا جا رہا ہے ان قرضوں کو کیسے ادا کریں گے حکومت کے پاس قرضوں کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں، حکومت نے نیشنل سیکورٹی کونسل کیوں نہیں بنائی ، انہوں نے کہا کہ مسلح افواج اکیلی نہیں پوری قوم ان کے ساتھ ہے ، فاروق ستار نے کہا کہ بلوچستان کی بات کرنے والے کراچی کی طرف بھی دیکھیں کراچی کا کیا ہو گا بلوچستان کا سیاسی حل نکالنے کی ضرورت ہے کراچی کے عوام کو ان کی قیادت کب ملے گی بلدیات کے تمام معاملات بھی وزیراعلی سندھ دیکھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ساخت بحال کریں،سابق ڈپٹی سپیکروزیر جوگزئی نے کہا کہ آئین کو بچانے کے لیے عدلیہ کو مضبوط کرنا ہو گا اسکے علاوہ جب تک سینٹ کو مضبوط نہیں کیا جائے گا یہ شکوے شکایت چلتے رہیں گے ،سابق صدر سی پی این ایس مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے حکومتوں کی کارکردگی مثالی نہیں ،دستور کی حاکمیت کو ختم کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے ، انہوں نے کہا کہ ایک خبر سے کیسے حل چل مچل گئی ہے اور قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی ہے یہ خبر غلط بھی ہو سکتی تھی آپ ایک خبر کو بنیاد بنا کر ہماری تقدیر سے کھیلنا چاہتے ہیں ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان کو مزید زخمی نہیں ہونے دیں گے۔سابق صدر سی پی این ای جمیل عطر نے کہا ہے کہ آج سب سے زیادہ ضرورت اتحاد کی ہے، آج ہماری آزادی اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے ۔ ممبر سٹیڈنگ کمیٹی اکرام سہگل نے کہا کہ ہم پر سی پیک کی وجہ سے بہت بڑا دباؤ ہے اور ہم اس وجہ سے بحران سے گزر رہے ہیں ، سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل اعجاز الحق نے کہا کہ پاکستان اس وقت اندرو نی و بیرونی مسائل کا شکار ہے سی پیک منصوبہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو ملک کی تقدیر بدل دے گا ، سینئر ایڈیٹر جبار خٹک نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور کا سامنا ہے ملک اس وقت خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے ، تجزیہ نگار امتیاز عالم نے کہا ہے کہ آج جمہوریت کو خطرہ ہے آج پاکستان دنیا بھر میں تنہا ہو گیا ہے ،لولی لنگڑی جیسی بھی جمہوریت آگئی ہے ہمیں اس میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہے ، سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار کے ایک سے زائد مراکز ہیں جس سے مسائل پیدا ہوئے آج پھر ہم نوے کی دھائی کی طرف جارہے ہیں،سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد نے کہا ہے کہ جب تک پاکستان  میں مظلوم کو انصاف اور غریب کو روٹی نہیں ملے گی ملک کیسے جنت نظیر بنے گا،ایک کمرے میں پانچ جماعتیں کیسے پڑھائی جا سکتی ہیں اور 15 ہزار کا ملازم کیسے دس ہزار کابجلی کا بل ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے سیاستدانوں کی میڈیا پر تنقید کے جواب میں کہا کہ میں سیاستدانوں سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ اگر ایک پندرہ ہزار کا ملازم دس ہزار بجلی کا بل کیسے ادا کرے۔ آپ جو چاہے کریں پانچ سال کی بجائے پچاس سال حکومت کریں جو چاہے کریں لیکن قائد کے خواب کے مطابق مظلو م کو انصاف فراہم کریں اور غریب کو روٹی دیں۔علاوہ ازیںقومی یکجہتی کانفرنس میں متفقہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان قومی اتفاق رائے کو فروغ دیا جائے ، آئین ، قانون کی حکمرانی، جمہوریت کے تسلسل اور بلاامتیاز تمام شہریوں کے لیے برابر کے انسانی حقوق کے احترام اور انہیں منوانے کے ہم پرجوش حامی رہیں گے اچھی گورنس ، شفافیت ، احتساب ، جانے کا حق ، آزادی اظہار  خاص طور پر میڈیا کی آزادی کو فروغ دیتے رہیں گے  ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم حق اور سچ لکھیں گے اور حق و سچ کا ساتھ دیں گے ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ، تمام حکومتیں اور مملکت کے تمام ادارے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کریں ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تمام لوگوں خاص طور پر مسلح افواج ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قبائلی خطے کے عوام کی شاندار قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جبکہ مملکت عوام اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے نان اسٹیٹ ایکٹرز ، کالعدم تنظیموں اور ان تمام افراد کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں ہم جمہوری حقوق کا پورا احترام کرتے ہیں ، ایسے اقدامات کیے جائیں جن  سےپڑوسی ملکوں سے کشیدگی میں کمی آئے تشویش کا باعث بننے والے تمام معاملات پر مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو ، جنگ بندی اور سرحدوں کی موثر نگرانی برقرار رکھی جائے اور مشترکہ طور پر دہشتگردی سے لڑنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے سی پی این ای سے مشاورت کے بعد معلومات تک رسائی کے قانون کو نافذ کیا جائے بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے امن پسند عوام پر بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظالم کا خاتمہ کیا جائے اور عالمی برداری سے اپیل کی جائے کہ وہ حق خود ارختیاری کے حصول میں کشمیری عوام کی مدد کرے اور ایل او سی اور پاک بھارت سرحدوں پر جنگ بندی برقرار رکھنے میں کردار ادا کرے۔
تازہ ترین