• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل پولیس بیورو کے 2ارب کے فنڈز آئی ایس آئی کومنتقل کردیئے گئے

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) پبلک اکائونٹس ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیشنل پولیس بیورو کے 2 ارب روپے سے زائدکے فنڈز اصل مقصدپر خرچ ہونے کے بجائے آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کردیے گئے8 سال پرانا معاملہ کمیٹی نے ایک بار پھر موخر کردیا۔ داخلہ حکام نےبتایاکہ پراجیکٹ مکمل ہو گئے ہیں  جبکہ پنجاب اور سندھ رینجر ز کے پینشن اور جی پی فنڈز سے 40 لاکھ روپے سے زائد دھوکہ دہی سے نکلوالیے گئے،رینجرز حکام معاملہ نمٹانے کی استدعا کرتے رہے کمیٹی نے ریکوری یا سیکرٹری داخلہ کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی۔ پبلک  اکائونٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس پیر کوکنونئیر کمیٹی رانا افضال کی زیر صدارت ہوا  جس میں وزارت داخلہ کے مالی سال 1999تا2009ء تک کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان رینجرز کے1999-2000 کے آڈٹ اعتراضات کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پنجاب رینجرز کے پینشن اکائونٹس سے 30 لاکھ روپے سے زائد نکلوا لئے گئے ہیں  جس پر ممبر کمیٹی محمود خان اچکزئی نے کہاکہ 17سال گزر گئے ہیں اور ریکوری نہیں ہوسکی ہے۔ پنجاب رینجرز کے حکا م نے بتایاکہ یہ معاملہ ہم خود سامنے لائے ہیں اور اس بارے انکوائری کی ہےاور اس میں 25 اہلکار ملوث تھے جن کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے اس میں سے کچھ ریکوری ہوگئی ہے 6 لاکھ جن کے ذمہ تھے وہ فوت ہوگئے ہیں جبکہ 15 لاکھ روپے تین افراد کے ذمہ ہیں جو اشتہار ی قرار دے دیے گئے ہیں جن سے اب ریکوری ممکن نہیں ہے اس لیے ان کو معاف کردیا جائے اور معاملہ نمٹا دیا جائے۔محمو د خان اچکزئی نے کہاکہ 17 سال پرانےمعاملے ہیں اور اس میں سے عبارت تک کو تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ہے پھر تو یہ اعتراضات کی ساری کتاب کو معاف کرنا پڑے گا۔ کمیٹی نے کہاکہ آپ سیکرٹری داخلہ کو مطمئن کرلیں یاپھر ریکوری کریں۔ا جلاس میں بتایاگیا کہ ستلج رینجرزکے جی پی فنڈ ز سے 16لاکھ روپے سے زائد رقم دھوکہ دہی سے نکلوا لی گئی۔ رینجز حکام نے بتایاکہ 9 لاکھ روپے کی ریکوری ہوگئی ہے اس معاملے کو بھی اول الذکر کےساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اس موقع پر کوسٹ گارڈز کے کرنل عامر نےکہاکہ ویلفئیرفنڈز آڈٹ ایبل نہیںہوتا جس پرکنونئیر کمیٹی نےکہاکہ یہ آڈٹ ایبل ہوتا ہے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ ویلفئیر فنڈآڈٹ ایبل ہوتا ہے۔ ا جلا س میں14آڈٹ اعتراضات رولز نہ ہونے کے باعث موخر کردیے گئے۔ کمیٹی نے رولز بنانے کےلیے تین ماہ کی مہلت دے دی۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ ایف آئی اے کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹرز جنرل  غلام اصغر ملک اور  اے رحمان ملک کے ذمہ ٹیلی فون بلز کی مد میں 20 لاکھ واجب الادا ہیں جس پر داخلہ حکام نے بتایاکہ رحمان ملک نے رقم ادا کردی ہے جبکہ غلام اصغر کے ذمہ نو لاکھ واجب الاد ا ہیں جس پر کنونئیرکمیٹی نے سنجیدہ  ہوکر پوچھاکہ غلام اصغرکدھر ہیں تووزارت داخلہ کےا فسرنے انتہائی معصومیت سےکہا کہ گھر ہونگے جس پر پوری کمیٹی کھلکھلا کرہنس پڑی۔ ممبر کمیٹی نےکہاکہ آپ سمجھدار ہیں اپنےافسر کے شہید ہونےکاانتظار کرتےہیں،ہمارا معاملہ ہوتا تو 1892 کا اعتراض بھی نکال لاتے۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایاکہ وزارت کے سیکرٹ سروس فنڈز میں سے آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو  فنڈز دے دیے گئے۔ا جلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیاکہ نیشنل پولیس بیورو کے 2ارب 13کروڑ36لاکھ روپے مالی سال 2005تا2007کے دوران  ایک دوسری گورنمنٹ ایجنسی کو دے دیے گئے  یہ فنڈز خود کار نظام برائے شناخت نشانات  انگلیاں ، پولیس ریکارڈ اور آفس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم ، نیشنل انٹیگریٹڈ  ٹرنک ریڈیوسسٹم کی تنصیب سےنکالے گئے تھے اور اس کام پر خرچ ہونےکے بجائے دوسری ایجنسی کو دے دیے گئے جس پر ممبر کمیٹی محمود اچکزئی نےکہاکہ یہ دوسری ایجنسی کون سی ہے بتایا جائے کچھ دیر خاموشی کے بعد خود ہی گویا ہوئےکہ یہ آئی ایس آئی کو دے دیے گئے جس پر آڈٹ حکام نےاثبات میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ جی  یہ فنڈز آئی ایس آئی کو ٹرانسفر کردیے گئے۔ میاں منان نے کہاکہ 2012میں پی اے سی  نےاس اعتراض بارے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی تھی اس کاکیا ہوا  جس پر کوئی جواب نہ دیا گیا۔ وزارت داخلہ کے حکام نے بتایاکہ ان پراجیکٹس پر پی سی 4 جمع کرا دیا گیا ہے اور یہ پراجیکٹس مکمل ہوگئےہیں جس پر کمیٹی نے مزید بحث کےلیے معاملہ موخر کردیا۔اجلاس میں کمیٹی نے  سٹیمپ ڈیوٹی اور رجسٹریشن فیس کی مد میںعدم وصولیوں کی وجہ سےہونےوالے لاکھوں روپے کے نقصان پر داخلہ کےحکا م سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔
تازہ ترین