• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کے خطرے تک پہنچ جانے والی زبوں حالی سے نکل کر بحالی اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہوجانے کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جارہا ہے جسے موجودہ حکومت کی معیشت کے میدان میں اچھی کارکردگی کا یقینی ثبوت قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ عالمی معیشت سے متعلق متعدد بین الاقوامی جرائد کی رپورٹیں اور ممتاز اقتصادی تجزیہ کاروں کے تبصرے اس حوالے سے پچھلے چند ماہ میں پے در پے سامنے آئے ہیں۔تاہم گزشتہ روز دنیا کے اہم ترین مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات اور اسٹیٹ بینک کے زیر اہتمام ایک سمینار سے خطاب میں غیرمبہم الفاظ میں یہ کہا جانا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل کردنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگیا ہے، بلاشبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ کرسٹینا لاگارڈے نے سیمینار سے اپنے خطاب میں مختصر مدت میں اہداف کے حصول کو موجودہ حکومت کی شاندار کامیابی اور پاک چین اقتصادی تعاون بالخصوص اقتصادی راہداری کو پاکستان کے لیے ترقی اور خوش حالی کا اہم منصوبہ قرار دیا۔تاہم بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی سربراہ نے پاکستانی معیشت کی ہموار ترقی میں حائل رکاوٹوں کی بھی واضح طور پر نشان دہی کی۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کا تاثر پاکستان میں بین الاقوامی نجی سرمایہ کاری کی آمد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے لہٰذا پاکستان کو کرپشن کے خلاف نتیجہ خیزاحتساب کو یقینی بنانا اور معاملات میں مکمل شفافیت کا ہتمام کرنا ہوگا۔ قرضوں کی صورت حال پر آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا کہ پاکستان کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کے 65 فی صد کے برابر ہوگیا ہے اور اس کا حجم 19 ہزار ارب روپے تک جاپہنچا ہے لہٰذا قرضوں کا بوجھ کم کرنا بہت ضروری ہے۔زیادہ سے زیادہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے، نجی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے، برآمدات میں اضافے، بجٹ خسارے میں کمی ، سرکاری اداروں کا خسارہ کم کرنے کے لیے اقدامات اور قومی ترقی میں خواتین کی بھی بھرپور شرکت کے اہتمام کو کرسٹین لاگارڈے نے لازمی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی تحویل میں چلنے والے اداروں کے مالی نقصانات بے نظیر انکم سپورٹ پر خرچ کی جانے والی رقم کے دوتہائی سے زیادہ ہے، اس میں کمی کرکے اسے انسانی اور طبعی وسائل پر خرچ کیا جائے تو شاندار نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت سرمایہ کاری معیشت کے دس فی صد کے مساوی ہے جبکہ دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں میں یہ تناسب اٹھارہ فی صد تک ہے۔اسی طرح برآمدات کا تناسب پاکستان میں معیشت کا دس فی صد جبکہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چالیس فی صد تک ہے۔انہوں نے تعلیم تک ہر شہری کے لیے رسائی کو ممکن بنانے اور تعلیمی بجٹ میں اضافے کی ضرورت کا اظہار کیا جو پاکستان میں ڈھائی فی صد جبکہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چار فی صد تک ہے۔کرسٹین لاگارڈے نے پاکستان میں روزگار کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ہاں ہرسال روزگار کے متلاشیوں میں بیس لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے جو ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ان لوگوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے تو قومی خوشحالی میں بے پناہ اضافہ ممکن ہے بصورت دیگر بے روزگاری کا مسئلہ شدیدتر ہوتا چلا جائے گا۔ پاکستانی معیشت پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ نے اپنے جامع تبصرے میں صرف مثبت پہلوؤں ہی کا ذکر نہیں کیا بلکہ اصلاح طلب امور کی بھی پوری طرح نشان دہی کی ہے جس کی بناء پر یہ ایک ایسا متوازن تجزیہ بن گیا ہے جس کی روشنی میں ہمارے اقتصادی حکمت کار معاشی ڈھانچے کی خامیوں دور کرکے اقتصادی استحکام کے عمل کو پائیدار اور دوررس نتائج کا حامل بناسکتے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کے خطاب کا ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے قول ’’ایمان ، اتحاد اور تنظیم ‘‘ کو پاکستانی قوم کے لیے ہرچیلنج سے نمٹنے کا سنہری اصول قرار دیا ۔بلاشبہ بانی پاکستان کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور انہیں اپنا کرہم قومی اتحاد و یکجہتی ، ترقی و خوشحالی اور اقوام عالم کی صفوں میں عزت و سرفرازی کے بلند ترین مقامات تک پہنچ سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین