• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عزیز ہم وطنو! پاکستان کے سیاسی حالات اس وقت گمبھیر ہی نہیں خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہیں۔ نومبر کا مہینہ جہاں آندھی و طوفان لاسکتا ہے وہیں اس کا بخیر انجام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں امن و آشتی کی نئی فضائیں چلا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں کہنے کو جمہوریت ہے۔ آئین اور پارلیمنٹ اپنے تمام منتخب اداروں کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستانی جمہوریت پر بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ یہ کہ عوام جاہل اور ان پڑھ ہیں اس لئے اچھے نمائندےچننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ کہ یہاں غربت بہت زیادہ ہے لوگ اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل قیادت چننے کی بجائے محض اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ کہ منتخب نمائندے سوائے اپنے ذاتی مفادات یاجیبیں بھرنے کے اور کچھ نہیں سوچتے۔ نتیجتاً یہاں سفارش اور کرپشن کاکلچر عام ہے۔ انہی دلائل کی بنیاد پر حال ہی میں سابق ڈکٹیٹر نے بیان جاری فرمایا ہے کہ ’’پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں۔‘‘
بالفرض ہم یہ مان لیتے ہیں کہ یہ تمام تر قباحتیں ہمارے سماج میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جمہوریت، پارلیمنٹ اور آئین کا بوریا بستر لپیٹ کر یہاں مستقل طور پر آمریت لاگو کردی جائے؟ کیا آمرانہ سسٹم چلانے کے لئے آسمانوں سے فرشتے نازل ہو جائیں گے؟ جب کوئی بھی ڈکٹیٹر نمودار ہوا تو بلاشبہ ہمارے سابق کھلاڑی جیسے بہت سے حضرات مٹھایاں بانٹتے پائے گئے لیکن انجام کار کیا ہوا؟ جب ڈکٹیٹر رخصت ہوا تو انسانی حقوق، ترقی، خوشحالی اور عوامی آزادی کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ عوام سے ان کا حق انتخاب چھین لینے کے بعدآزادی کا کیا مفہوم رہ جاتا ہے؟ خراب جمہوریت کا مطلب جمہوریت کی بساط لپیٹنا کہاں لکھا ہے؟ جمہوریت کی جتنی بھی خامیاں گنوائی جاتی ہیں ان سے بدرجہا بدتر خامیاں آمریتوں میں ہوتی ہیں مگر وہ نظر اس لئے نہیں آتیں کہ آمریت کی بنیاد جبر پر ہوتی ہے۔ سابق کھلاڑی آج جو لچھن جمہوریت کو دکھا رہا ہے اور جیسی بے پر کی اُڑا رہا ہے اگر یہاں شخصی حکومت یا ڈکٹیٹر شپ ہوتی تو کیا ایسی بے مہار آزادی کا تصور بھی کیا جاسکتا تھا؟ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ گئی گزری جمہوریت بھی اعلیٰ ترین ڈکٹیٹرشپ سے بہتر ہوتی ہے اور ہنوز انسانی سماج نے اس سے بہتر سسٹم دریافت نہیں کیا۔ مقررہ مدت میں انتقال اقتدار ممکن ہوتا ہے۔ تمام تر انسانی حقوق اور آزادیاں بھی شہریوں کو آئینی طور پر حاصل ہوتی ہیں۔ آزاد عدلیہ سے داد رسی ہوسکتی ہے۔
آج آپ منتخب جمہوری وزیراعظم کے خلاف جس طرح گلے پھاڑ پھاڑ کر الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں اور احتساب کے نام پر دنیا بھر کی سیاہی جمہوری حکومت پر مل رہے ہیں ذرا تصور تو کریں اس نوع کے مطالبات کسی سابق غیرجمہوری حکمران کے خلاف اٹھائے جاسکتے ہیں۔ آج آپ فرما رہے ہیں کہ وزیراعظم کیخلاف کسی نوع کے عدالتی فیصلے کی ضرورت ہی نہیں ہے اسلئے کہ اپ خود مدعی بھی ہیں اور منصف بھی ہیں۔ جہاں سے آپ جیتیں وہاں منصفانہ الیکشن ہوتے ہیں اور جہاں سے آپ ہاریں وہاں دھاندلی ہوتی ہے۔ جمہوریت اگر آپ کو اقتدار دلادے تو بہت اچھی ہے نہ دلائے تو جمہوریت پر بھی تین حروف۔ کیا آپ براہ راست وزیراعظم کے سنگھاسن پربراجمان ہوجائیں گے؟ چندلمحوں کے لئے غور فرمالیجئے اس سنگھاسن تک پہنچنے سے پہلے آپ کو کئی بکروں کی قربانی دینا پڑے گی۔ اس دفعہ کینیڈا والے تو اپنے بکرے لے کر نہیں آرہے البتہ 30کروڑ میں جتنے بکرے خرید سکتے ہیں اتنے ضرور خرید لیجئے۔ ظاہری رقوم کے علاوہ کچھ خفیہ رقوم بھی ہوں گی، صدقات اتارنے کیلئےان سے بھی جتنی خریداری کرسکتے ہیں ضرور کیجئے۔ شاید پروردگارِ عالم، عالم بالا سے ہی آپ کیلئے کچھ دنبوں کا اہتمام فرما دے۔ اسلام آباد کو مکمل بند کرنے سے پہلے اور مابعد جتنی بھی قربانیاں دی جاسکتی ہیں آپ ان کا بندوبست کرلیں۔ اس طرح ممکن ہے کہ اس بار شاید آپ وزارت ِعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہ کرسی ہے بڑی خطرناک۔ اس پر بیٹھنے والامنتخب وزیراعظم ہی نہیں رویا ماقبل ایک ڈکٹیٹر بھی عوامی خطاب کے دورا ن زار و قطار رو پڑا تھا اور پھر بالآخر خوفناک انجام سے دوچار ہوا۔ ایک تو ابھی بیماری کا بہانہ بنا کر باہر گیا ہے اور کیا معلوم قانون کب تک اس کا پیچھا کرتا ہے اور بالآخر وہ کس انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسے ہی تجربے سے گزرنےکے بعد ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ یہ کرسی دور سے تو بڑی سہانی لگتی ہے لیکن جب ہوش آتا ہے تو اقتدار کا بھوکا اسے چھوڑنا بھی چاہتا ہے لیکن یہ کمبل اسے نہیں چھوڑتا..... یہ بھی یاد رہے کہ سسٹم کو یوں ڈی ریل کرکے اگر آپ اس پر براجمان ہوں گے تو اس بڑی کاوش کی تمام تر قیمت پوری قوم کو بھگتنا پڑے گی۔ وطن عزیز میں مرکز گریز قوتوں یا علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا ملے گی، قومی یکجہتی پارہ پارہ ہو جائےگی، ملک کئی برسوں کے لئے لاقانونیت کی تاریکی میں چلا جائے گا۔ خاکم بدہن آئین کاغذ کے چند ٹکڑے قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے گا اور مستقبل کا مورخ یہ لکھ رہا ہوگا کہ ایک سابق کھلاڑی نے وزیراعظم بننے کے شوق میں ملک کا بیڑہ غرق کروا یا تھا۔ اس لئے ہمارےایک ارسطو وزیر کی تجویز اچھی ہے کہ آپ اپنا نام ’’وزیراعظم‘‘ رکھ لیں تاکہ ہم آئندہ سے آپ کو اسی نام سے پکار کر خوش کردیا کریں۔




.
تازہ ترین