• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک حالیہ خبر کے مطابق میانمار کے دارالحکومت میں پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل میانمار کی سرحدی چوکی پر مسلح دہشت گردوں کے حملے میں 10 پولیس اہلکار اور تین شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں 11 مسلح دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حملہ آوروں نے حملہ کرتے ہوئے ہم روہنگیا سے ہیں کے نعرے بھی لگائے۔ راخین کی ریاستی انتظامیہ کے اہم اہلکار ٹن مانگ سو نے خبر رساں ادارے اے پی ایف کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس حملے کی ذمہ دار 1980ء اور 1991ء کی دہائی میں سرگرم تنظیم روہنگیا سو لیٹریرٹی آرگنائزیشن (آر ایس او) ہے۔ میانمار کی ریاست راخین میں حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے پولیس چوکیوں سے 50 بندوقیں اور ہزاروں گولیاں بھی لوٹ لی ہیں۔
راخین میں روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں کشیدگی اور دشمنی کافی عرصہ سے جاری ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 2012ء میں راخین ریاست میں دہشت گردوں کے پھیلائے ہوئے نسلی فسادات کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو کر پناہ گزین بن گئے تھے۔ میانمار میں بدھ مت آبادی ملک میں موجود لگ بھگ 12 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیشی مہاجرین یا دخل انداز سمجھتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی روہنگیا مسلمانوں کو شہرت دینے سے انکار کر دیا ہے اور ماضی میں متعدد حملوں اور دہشت گردی کا ذمہ دار آر ایس او کو ٹھہرایا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ نے جہاں پاکستان کا دورہ کرنے کا عندیہ دیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی کسی مسلم ملک کی طرف سے مددیا امداد اور نہ ہی کسی اسلامی کانفرنس یا عرب لیگ کی طرف سے ان کے قتل عام کو روکنے کے لئے کوئی اقدام اٹھایا گیا ہے جبکہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے حکومت برما (میانمار) سے روہنگیائی مسلمانوں کو شہریت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مسلم ممالک کی اس بے حسی کی تحقیقات، چھان بین اور وجوہات جاننے کے لئے پوپ نے ایک خفیہ کمیٹی قائم کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ مسلمان اتنے بے حس کیوں ہو چکے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک نے کسی بھی پلیٹ فارم سے مناسب انداز میں روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اقوام عالم کے سامنے پیش نہیں کیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کو جلا وطن اور ان پر حملے ایسے وقت ہوئے جب بیشتر اسلامی ملک اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کر رہے تھے اور ان کے درمیان تیزی سے اختلافات اجاگر ہو رہے تھے۔ غریب مسلمان ممالک اقتصادی طور پر مفلوک الحال تھے (اور ہیں) امیر ممالک اپنے حال میں مگن تھے اورہیں۔ان ممالک کی بین الاقوامی وابستگیاں آج بھی اسی طرح بٹی ہوئی ہیں جس طرح میانمار سے بے دخل کئے گئے روہنگیا مسلمانوں کے دنوں میں تھیں۔ ان مسلم ممالک کے سفارتی، اقتصادی، مالی ، سیاسی، جمہوری اور دفاعی تعلقات آج بھی انہی پرانے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ رشتوں اور تعلقات کی یہ نوعیت دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ عالم اسلام روہنگیا کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں فعال یا غیر فعال کردار ادا کرنے میں کیوں ناکام رہا۔سیاسی مسائل سے ہٹ کر بھی کچھ وجوہات ہوں گی اور روہنگیا مسلمان آخر ہیں کون اور ان کا مقدمہ بے پناہ دولت رکھنے والے مسلم ممالک نے کیوں لڑنا نہیںچاہا۔ یہ جانا اور مانا جاتا ہے کہ روہنگیا بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ انگریزوں نے انہیں خاص طور پر سری نامی کالونی کی طرح 18ویں صدی میں یہاں بسایا تھا۔ بعد میں روہنگیا مزید دو مواقع پر یہاں خود آکر آباد ہوئےتھے۔
پہلے 1947ء میں آزادی کے وقت اور دوسرے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی کے وقت۔لیکن میانمار کے مغربی حصے میں رہنے والے اس اقلیتی طبقے کے یہاں بسنے کو مقامی لوگ اچھا نہیں کہتے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ لوگ (روہنگیا) حال ہی میں یہاں آگئے ہیںلہٰذا انہیں میانمار کی شہریت نہیں دی جا سکتی لیکن دوسری طرف روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سینکڑوں سال سے آباد ہیں اور یہیں کے شہری ہیں جنہیں حکومت ٹارچر کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بنگلہ دیش میں 25 ہزار روہنگیا گزشتہ 22 برس سے پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن انہیں ابھی سرکاری طو رپر پناہ گزیں کی حیثیت نہیں دی گئی کہ یہ ملک بھی دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے خاص طور پر ایسے وقت میں مستقل پناہ دینے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا جب بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام لگ رہا ہے۔
اس سے قبل مئی 2012میں ایک بودھ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے بعد روہنگیا مسلمانوں اور اکثریتی آبادی والے بودھوں کے درمیان فسادات اور قتل و غارت شروع ہوگئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعہ نے ایسی شکل اختیار کرلی کہ اقوام متحدہ کو بھی مداخلت کرنا پڑی۔ خاتون کا قتل فسادات پھوٹنے کا باعث بن گیا پولیس نے 4مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا لیکن معاملہ یہی ختم نہیں ہوا۔ 3جون 2012کو بدھسٹوں کے ایک گروہ نے تو تاپ نام کی ایک جگہ پر ایک بس پر حملہ کردیا ان کو شک تھا کہ بس میں ملزمان جارہے ہیں۔ اس حملے میں دس افراد مارے گئے جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی جس کے جواب میں روہنگیا مسلمانوں نے بھی ان پر حملے شروع کردیئے اور یہیں سے اس ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
میرے حساب سے میانمار میں مسلمانوں اور بدھسٹوں کے درمیان موجودہ کشیدگی طالبان کی طرف سے بامیان میں بدھ کی مورتی اور بدھ مت کی تعلیمات کی سلیں توڑنے کے بعد سے شروع ہوگئی تھی۔ میرے خیال میںایسے فسادات راتوں رات نہیں ہوتے اس کے لئے پہلے سے ماحول تیار کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اب قابل رحم ہوگئی ہےاور اس قابل رحم حالت کا دہشت گرد اور انتہا پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
دونوں ہی سے رشتہ رکھو دونوں سے ہوشیار رہو
انسانوں کی جان کا دشمن لوہا بھی ہے سونا بھی!



.
تازہ ترین