• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں دہشتگردی کیلئےلشکر جھنگوی العالمی اورداعش کاگٹھ جوڑ

اسلام آباد(اعزاز سید) اگرچہ رواں ماہ محرم میں لشکر جھنگوی العالمی کی موجودگی اسکی  طرف  سے مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کئے جانے کے باعث بہت واضح رہی تاہم منگل کو کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کیمپ پر حملہ جس میں 60کے قریب نوجوان کیڈٹس شہید ہوئےلشکر جھنگوی العالمی اور داعش کیطرف سے مشترکہ طور پر کیا جانیوالا سب سے بڑا دہشتگردحملہ ہے۔گروپ کےترجمان جس نے اپنا تعارف علی بن سفیان کے نام سے کرایانےراقم کو حملے کے بعد بتایا کہ’’ہم نے داعش کیساتھ ملکر یہ کارروائی کی‘‘ بظاہر لشکر جھنگوی العالمی کوئٹہ حملے میں بنیادی طو رپر ملوث ہے ۔دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ یہ گروپ خود کو لشکر جھنگوی العالمی کہتا ہے لیکن درحقیقت اس نے کالعدم لشکر جھنگوی کا خلا پر کیا ہے اور ایک نئے نام لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے دوبارہ ابھری اورجنگجو گروپوں کیطرف سے مختلف ناموں کے ذریعے کام کرنےکارواج برقرار رکھ کرعوام اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔داعش کا نیٹ والی تا حال خفیہ ہے تاہم لشکر جھنگوی العالمی کے حوالے سے تفصیلات راقم نے انفرادی طور پر حاصل کر لی ہیں۔ محرم الحرام کے دوران واہ کینٹ میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے حملے کے بعد راولپنڈی پولیس نے محکمہ داخلہ پنجاب اور قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی (نیکٹا) کو اس گروپ کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی تھی یہ بات محکمے کے ذرائع نے بتائی ۔رواں ماہ محرم کے دوران اسی گروپ نے کوئٹہ، واہ کینٹ اور کراچی میں کم از کم 3دہشتگرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں ایک اقلیتی فرقے کو نشانہ بنایا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کو اپنے فعال ہونے کا واضح پیغام دیا۔ قبل ازیں لشکر جھنگوی ملک میں خطرناک ترین عسکریت پسند گروپوں میں سےایک تھاجو القاعدہ سے بھی منسلک رہاہے۔ پہلے پہلے یہ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ سال29جولائی کو کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے اس تنظیم کے 3دیگر رہنمائوں کیساتھ متنازع پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد یہ گروپ ملک سے مکمل طورپر ختم ہو چکا ہے تاہم پولیس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت ہزہمت کا سامنا کرنا پڑا جب اس خطرناک تنظیم نے اپنی موجودگی ثابت کی اور صرف 17روز کے اندر پھر حملہ کر دیا۔ کالعدم لشکر جھنگوی نے16اگست 2015ء کو اٹک میں دہشتگرد کارروائی کر کے اس پولیس مقابلے کا بدلہ لیا جب انہوں نے ’’خود کش بمبار بھیج کر وزیر داخلہ پنجاب کرنل(ر) شجاع خانزادہ کو انکےشہراوررہائشگاہ کو نشانہ بنایا مذکورہ حملہ کالعدم لشکر جھنگوی العالمی نے ایک اور عسکریت پسند تنظیم سے ملکر کیا۔ دہشتگردی کے حوالے سے آزادماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس تنظیم نے روایتی طور پر دوبارہ جنم لیاہے۔گزشتہ چند سالوں میں لشکر جھنگوی دو مرتبہ خود کو منظم کر کے نئی قیادت سامنے لائی ہے۔لشکر جھنگوی کے رہنمائوں بشمول اسکے بانی ریاض بسرا کو 2002ء میں ہلاک کئے جانے سے فرقہ وارانہ قتل و غارت میں معمولی وقفہ آیا لیکن 2004ء میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر آئی جو2008میں اسکےرہنمائوں کےمارےجانےکےبعد تھمی،اسکےبعد 2010ء میں فرقہ وارانہ قتل کی وارداتوں میں ایک دم پھر تیزی آئی جب آصف چھوٹو اور نعیم بخاری سمیت نئی قیادت نے گروپ کی سربراہی سنبھالی یہ قیادت زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور ’’اے ٹو زی آف جہاد یزان پاکستان کے مصنف عامر رانا کاکہناہےکہ یہ اس گروپ کا دوبارہ جنم ہے اور اس سے فرقہ وارانہ تشدد کی نئی لہر آ سکتی ہے۔
تازہ ترین