• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئٹہ حملہ، سیکورٹی کے یکے بعد دیگر نقائص، ایک مرتبہ پھر ہم ناکام ہوگئے

اسلام آباد (انصار عباسی) کوئٹہ میں 60؍ پولیس اہلکاروں کی شہادت کا واقعہ سیکورٹی کے سنگین نقائص کا ایک اور معاملہ ہے، جس پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا وہ نامناسب سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے غیر محفوظ تھا حالانکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حملے کے امکانات کے متعلق الرٹ جاری کر دیا  تھا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے تصدیق کی کہ ان کی حکومت کو کچھ دن قبل انٹیلی جنس کی طرف سے یہ رپورٹ ملی تھی کہ کوئٹہ میں کچھ جنگجو داخل ہوئے ہیں اور وہ تخریبی کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کے علاقے اُڑی میں بھارت کے جعلی فلیگ آپریشن کے بعد، پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کو توقع تھی کہ بھارتی ایجنسی را دہشت گردوں کے ذریعے خصوصاً بلوچستان میں حملے کروا سکتی ہے جس میں فوج، سیکورٹی اداروں، انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے حال ہی میں میڈیا نے بتایا تھا کہ را دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں موجود عناصر کے ذریعے بلوچستان، کے پی اور فاٹا میں فوج اور آئی ایس آئی وغیرہ کے ٹھکانوں پر حملے ہو سکتے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر کو صرف تین دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے مناسب حفاظتی انتظامات نہیں دیئے گئے۔ یہ تینوں دہشت گرد مزاحمت کے بغیر سینٹر میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ ہی مہینے پہلے کی بات ہے کہ دہشت گردوں کے حملے میں 50؍ وکیل جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس واقعے کو دیکھ کر بھی سیکورٹی کی ناقص صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ میں پہلے ایک وکیل کو گولی مار کر قتل کیا گیا اور جب وکلاء برادری کوئٹہ اسپتال پہنچی تو خود کش حملہ آور بڑی آسانی کے ساتھ اور بنا کسی مزاحمت کے وہاں پہنچاا ور خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں 50؍ وکیل جاں بحق اور کئی دیگر زخمی ہوگئے۔ اُس وقت بھی، سیکورٹی صورتحال پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے لیکن پیر کو پولیس ٹریننگ سینٹر بھی دہشت گردوں کا آسان ہدف بن گیا۔ گزشتہ سال دہشت گردوں نے بڈھ بیر کیمپ پشاور میں حملہ کرکے تقریباً 29؍ معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ حملے سے پہلے الرٹ بھی جاری کیا جا چکا تھا۔ تقریباً 13؍ دہشت گرد پاک فضائیہ کی بیس میں داخل ہوئے اور ایئر بیس کی مسجد میں  29؍ نمازیوں کو شہید کر دیا۔ زیادہ تر شہداء کا تعلق ایئر فورس سے تھا۔ تمام دہشت گرد مارے گئے، ان کے ساتھ مقابلے میں ایک کیپٹن اور ایئر فورس کے تین اہلکار شہید ہوئے۔ اُس وقت بھی حکام نے وہی کچھ کہا جو پیر کے روز پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کے موقع پر کہا تھا - ’’دہشت گردوں کو نہ روکتے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا۔’’ کوئی نہیں جانتا کہ دہشت گردوں کا اصل منصوبہ کیا تھا اور انہوں نے کتنے معصوم افراد کو مارنے یا کون سی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ اس واقعہ کو بڑا بنایا جا سکے۔ کئی لوگوں کو تو حیرت ہوتی ہے کہ 60؍ پولیس کیڈٹس کی شہادت تباہ کن واقعے سے کم کیسے ہے۔ دفاعی اڈے، فوجی تنصیبات، انٹیلی جنس، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عام حالات میں بھی حفاظتی انتظامات مکمل رکھنا ہوتے ہیں اور اس کیلئے سیکورٹی کی مختلف سطحوں پر مشتمل انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ دہشت گرد حملے کو روکا جا سکے۔ جن حالات کا سامنا پاکستان کو ہے؛ ان میں یہ حفاظتی انتظامات اور سیکورٹی حصار سو گنا بہتر ہونا چاہئیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران، ہم نے نہ ختم ہونے والے کئی پرتشدد واقعات دیکھے ہیں جن میں نہ صرف ہزاروں معصوم شہریوں کی جان جا چکی ہے بلکہ کئی ہائی پروفائل افراد اور حساس اور اسٹریٹجک اہمیت کی حامل تنصیبات پر بھی حملے ہوئے ہیں جن میں جی ایچ کیو، بحریہ کے اڈرے، فضائیہ کے اڈے، ایئرپورٹس اور انٹیلی جنس اداروں کے علاقائی ہیڈکوارٹرز اور کینٹ کے علاقوں کے اسکولز شامل ہیں۔ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملہ انتہائی خوفناک تھا لیکن اُس واقعے میں بھی دہشت گردوں نے انٹیلی جنس اداروں کے پیشگی الرٹ اور وارننگ کے باوجود حملہ کر دیا۔ اسی سال دہشت گرد کراچی ایئرپورٹ کے انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں حملہ کر دیا، واقعے میں 28؍ افراد جاں بحق ہوئے، 10؍ دہشت گرد شامل تھے۔ اُس کیس میں بھی پیشگی انٹیلی جنس رپورٹس کے باوجود حملہ ہوا۔ دسمبر 2012ء میں، دہشت گردوں نے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ اسی سال منہاس ایئربیس کامرہ پر حملہ ہوا۔ 22؍ مئی 2011ء کو دہشت گردوں نے مہران نیول بیس پر حملہ کیا جس میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت  17؍ افراد جان سے گئے۔ مارچ 2009ء میں دہشت گردوں نے انتہائی اہمیت کے حامل سمجھے جانے والے فوج کے دفتر جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) پر حملہ کیا۔ بتایا گیا تھا کہ انٹیلی جنس اداروں نے وارننگ دی تھی کہ دہشت گرد جی ایچ کیو پر حملہ کر سکتے ہیں۔ بظاہر دہشت گرد نیٹ ورکس جان بچانے کیلئے بھاگتے پھر رہے ہیں اور آپریشن ضرب عضب کے بعد کمزور ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردوں کے پاس اب بھی اتنی طاقت باقی ہے کہ وہ سیکورٹی کے نقائص کا فائدہ اٹھا کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ دہشت گردی کیخلاف سیکورٹی اداروں کی حالیہ برسوں میں کارکردگی قابل ستائش ہے لیکن اداروں کو چاہئے کہ وہ سیکورٹی کی مجموعی حکمت عملی پر غور کریں اور اس کا جائزہ لیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد دفاعی اور سیکورٹی اداروں، انٹیلی جنس یا پھر کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کے قریب تک نہ جا سکیں۔
تازہ ترین