• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ 19 ستمبر 2015ء کی اشاعت میں محمد علی درانی ’’ کھلا تضاد ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ 16 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے Indian Independence Actمنظور کیا ، جس میں پاکستان کے حصے میں آنیوالے صوبوں اور علاقوں کی تفصیل بیان کر دی گئی تھی ۔ اس قانون کے سیکشن 4 کے تابع سیکنڈ شیڈول کے مطابق صوبہ پنجاب ، لاہور، ملتان اور راولپنڈی ڈویژن پر مشتمل تھا ۔ لاہور ڈویژن میں چار اضلاع، گوجرانوالہ، شیخوپورہ ، سیالکوٹ اور لاہور شامل تھے ۔ ملتان ڈویژن میں چھ اضلاع، جھنگ، لائل پور ( اب فیصل آباد) ، منٹگمری ( اب ساہیوال ) ، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازی خان اور ملتان جبکہ راولپنڈی ڈویژن میں چھ اضلاع اٹک، گجرات، جہلم، میانوالی ، شاہ پور ( اب سرگودھا ) اور راولپنڈی پر مشتمل تھا ۔ آگے درانی صاحب لکھتے ہیں کہ انتظامی ضرورت کے تحت پنجاب میں اب تک پانچ نئے ڈویژن اور سترہ نئے اضلاع بنائے جا چکے ہیں لیکن بہاولپورمیں نہ تو کوئی ضلع بنایا گیا اور نہ ہی ڈویژن ۔
جہاں تک بہاولپور میں نئے اضلاع اور نئے ڈویژنوں کی بات ہے تو ان کی ضرورت و اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ لیکن انگریز دور سے لیکر آج تک نئے اضلاع اور ڈویژن بنانے کا پیمانہ انتظامی سے بڑھ کر سیاسی ہے، جیسا کہ میرا شہر خانپور تقسیم سے پہلے ضلع تھا اور مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومال تحریک کے ذریعے اسے آزادی کا مرکز بنایاتو انگریزوں نے اسے تحصیل بنوا دیا۔ ضلع کو تحصیل بنائے جانے کے دن سے لیکر آج تک خانپور کے لوگ ضلع بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور قریباً چالیس سال سے خانپور ضلع بحالی کی تحریک بھی موجود ہے مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ۔ انگریزوں نے اپنے وفادار علاقوں کو نوازنے اور انگریز راج کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو سزا دینے کی جو روش اختیارکی ، وہ آج بھی جاری ہے۔ جیسا کہ جھنگ اورملتان میں انگریز کے خلاف مزاحمت ہوئی تو انگریز نے نہ صرف ملتان کی صوبائی حیثیت ختم کی بلکہ جھنگ میں وسیع پیمانے پر آباد کاری کر کے جھنگ کی تحصیل لائل پور کو ترقی دی اور جھنگ و ملتان کے نصیب میں ہمیشہ کی پسماندگی لکھ دی گئی اور یہاں کے باشندوں کی شناخت بھی جانگلی قرار دیدی گئی۔ اسی طرح ابھی کل کی بات ہے کہ ملتان ڈویژن سے پہلے اوکاڑہ الگ کیاگیا ، پھر پاک پتن اور اب ساہیوال کو کاٹ کر ڈویژن اور چنیوٹ کو ضلع قرار دینے کا مقصد بھی اسے مجوزہ سرائیکی صوبے سے ہمیشہ کیلئے الگ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ مزید برآں سرائیکی زبان کےقدیم مرکز شاہ پور کو تنزلی کا شکار کر نے اور سرگودھا کو ترقی دینے کا مقصد بھی اس خطے کو سرائیکی وسیب سے الگ کرنے کے سوا کچھ نہ تھا ۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بات صرف بہاولپور کی نہیں بلکہ پورے سرائیکی وسیب کا یہی حال ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک سرائیکی جغرافیے پر مشتمل اس کی شناخت کے مطابق سرائیکی صوبہ قائم نہیں ہو گا ، سرائیکی وسیب کی محرومی ختم نہ گی۔موصوف آگے لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد 5 اکتوبر 1947ء کو ریاست بہاولپور ایک معاہدے کے تحت وفاقی اکائی کے طور پر پاکستان کا حصہ بنی۔ 1951ء میں اسے قانونی طور پر صوبائی حیثیت دی گئی۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں آئین موجود نہ تھا اور 1955ء میں مغربی پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی طرح بہاولپور بھی ایک معاہدے کے تحت ون یونٹ میں شامل ہوا۔ 1970ء میں ون یونٹ ختم کیا گیا تو مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو بحال کیا گیا لیکن بہاولپور صوبہ بحال نہ کیا گیا۔
محترم محمدعلی درانی کے بہاولپور صوبے کے حوالے سے مضمون میںصرف ایک بات کو دہرایا جا رہا ہے کہ بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے۔ ہم بار بار عرض کرر ہے ہیں کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا ، قیام پاکستان کے بعد اور ون یونٹ کے قیام تک بہاولپور کے معاملات نواب آف بہاولپور نواب صادق محمد خان عباسی خود سر انجام دیتے رہے۔ 1952ء میں ایک عبوری آئین لایا گیا اور شاہی فرمان کے ذریعے ریاستی اسمبلی وجود میں لائی گئی جس کے سربراہ نواب آف بہاولپور خود تھے اور اسمبلی نے مخدوم زادہ حسن محمود کو وزیراعظم نامزد کیا ۔اگر یہ بہاولپور کی صوبائی اسمبلی ہوتی تو اس کا وزیراعظم کی بجائے ، وزیراعلیٰ ہوتا اور گورنر بھی ہوتا۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ چند سال قبل بہاولپور صوبے کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا ۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز چوہدری صاحب کو بہاولپور صوبے کے ثبوت پیش نہ کئے جا سکے ، جس پر جسٹس صاحب کے ریمارکس ’’ جب بہاولپور صوبہ نہ تھا تو بحالی کس بات کی ؟ ‘‘ ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔
اب رہی یہ بات کہ میں بہاولپور کے مجبور و مقہور عوام کی بات کرتا ہوں تو سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے خطے کی ہی بات کرنی ہے تو بہاولپور ڈویژن ، ملتان ڈویژن ، سرگودھا ڈویژن ، ڈیرہ غازی خان ڈویژن، ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور فیصل آباد ڈویژن کا نصف حصے کی تہذیب و ثقافت ایک ہی ہے اور یہ تمام علاقے جغرافیائی طور پر صدیوں سے ملتان کا ہی حصہ رہے ہیں اور ریاست بہاولپور نے بھی نواب حیات اللہ خان کے دور میں ملتان کے وجود سے جنم لیا۔ ان تمام علاقوں کی تہذیبی و جغرافیائی شناخت کے ساتھ ساتھ زبان بھی ایک ہے ، رسوم و رواج بھی ایک ہیں ، یہاں کے پھول ، ان کے رنگ ، ان کی خوشبو ، یہاں کے درخت، ان کے پھل ، ان کا ذائقہ ، سب کچھ ایک ہی ہے اور یہ خطہ جسے تاریخ میں سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سر زمین کہا گیا ، ایک ہی ہے ، دریا پانی سب کچھ ایک ہی ہے تو پورے خطے کی بجائے صرف بہاولپورکے حقوق کی بات کیوں کی جاتی ہے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرائیکی خطے میں بہاولپور اور رحیم یارخان وسیب کے دوسرے اضلاع کی بہ نسبت تعلیم و روزگار اور صحت کے معاملے میں بہتر ہیں ۔ جس نقطہ نظر سے بہاولپور کی بات کی جاتی ہے ، وہ سرائیکی وسیب کو تقسیم کرنے ، بہاولپور کے لوگوں کو وسیب کے دوسرے علاقوں سے دور کرنے یعنی جدا کرنے والی بات ہے۔ رنجیت سنگھ کے قبضے کو دو سو سال ہو رہے ہیں ، دو صدیوں بعد سرائیکی وسیب کے ایک ہونے کی سوچ پیدا ہوئی ہے ۔ یہ مثبت سوچ ہے اور اسے پروان چڑھنا چاہئے ۔
تازہ ترین