• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

106 لینگویج کالجز کو بند کرنے کا ہوم آفس کا فیصلہ غلط تھا، کورٹ آف اپیل

لندن (سعید نیازی) انگریزی زبان پر عبور کے امتحان TOEICسے متعلق اپیل آف کورٹ نے ہوم آفس کے خلاف ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس کے تحت 106لینگویج کالجز کو بند کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ برطانیہ کے معروف قانون دان ڈاکٹر ملک نے کورٹ آف اپیل کے فیصلے کو سچ کی فتح قراردیا ہے، رواں برس مارچ میں ہائی کورٹ نے کالج مالکان اور طلبہ کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد اس وقت کی ہوم سیکرٹری تھریسامے کو خفت اٹھانا پڑی تھی اور انہوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت ہوم آفس کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین کیتھ واز نے ہوم آفس کیخلاف تحقیقات کرانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ خیال ہے کہ کورٹ آف اپیل کے اس فیصلے کے بعد کالج مالکان اور متاثر ہونے والے ہزاروں طلبہ حکومت کے خلاف ہرجانے کے کیس دائر کریں گے۔ چند برس قبل حکومت نے جب امیگریشن کو سخت کرنے کیلئے نیا قانون بنایا کہ ہر طالبعلم جو کہ برطانیہ میں زیر تعلیم ہے اپنے ویزے کی توسیع یا تجدید کے وقت ایک ایسا سند یا سرٹیفکیٹ دینا پڑے گا جس سے یہ ثابت ہو کے اس طالبعلم کو انگریزی زبان پر کس حد تک عبور حاصل ہے، یہ پابندی غیر معینہ مدت کے قیام کیلئے درخواست دینے والوں پر لاگو کی گئی اس کے ساتھ ہوم آفس نے کثیر فیس لیکر سیکڑوں کالجز کو اختیار دیا کہ وہ انگریزی زبان کا امتحان لے کر اسناد جاری کریں۔ اس ضمن میں نہ صرف ہوم آفس نے کالجوں سے بھاری فیسیں وصول کیں بلکہ ہر ایسے سرٹیفکیٹ کیلئے علیحدہ سے فیس بھی وصول کی تاہم کچھ عرصہ بعد ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انکشاف کیا گیا کہ بعض کالج بوگس سرٹیفکیٹ جاری کررہے ہیں ان کالجوں  میں کوئی بھی کالج پاکستانی نہیں تھا جس کے بعد ہوم آفس حکومت میں آگیا اور ساٹھ سے زائد کالجوں کو فوری طور پر بند کر دیا گیا یہ پالیسی بھی بنا دی گئی کہ ایسے لوگ جنہوں نے ماضی میں ETSکے جاری کردہ انگریزی زبان پر دسترس کے سرٹیفکیٹ جمع کرائے تھے ان کی ویزا درخواستوں کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اور اگر کسی کو ویزا مل چکا ہے تو اسے بھی منسوخ کر دیا جائے گا۔ ہوم آفس کے اس فیصلے کے نتیجے میں 106کالجز بند ہو گئے جن سے 48ہزار طلبہ کا مستقبل بھی تاریک ہو گیا ان لوگوں کو بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ انگریزی زبان پر دسترس کے سند دے کر برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست جمع کراتے تو انہیں سکونت کی منسوخی کے احکامات تھما دیئے جاتے۔ جس کے بعد ہوم آفس کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ اس کیس کی پیروی بیرسٹر ذین ملک نے کی تھی اور جس کے نتیجہ ہوم آفس کے خلاف نکلا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے کورٹ آف اپیل میں اپیل کی تھی لیکن کورٹ آف اپیل نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ ڈاکٹر ملک نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے جنگ کو بتایا کہ اس فیصلے کے دوررس نتائج برآمد ہونگے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ 48ہزار طلبہ کے حق میں فیصلہ آیا ہے۔ اب بند ہونے والے کالجز اور ہزاروں طلبہ اپنے نقصان کا ازالہ کر سکیں گے۔ پاکستان سے ہزاروں طلبہ لاکھوں روپیہ خرچ کرکے آئے تھے لیکن اس ہوم آفس کے فیصلے کے سبب ان کا مستقبل تاریک ہوگیاتھا۔ اگر چند کالجز میں کوئی غلط کام ہوا بھی تھا تو اس کی سزا تمام کالجز کو دینا انصاف نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہوم آفس کے وزیر جیمز بروکنشائر کو یہ تجویز بھی دی تھی کہ جس طرح مکان خریدنے والے سالیسٹر کے ذریعے گھر خریدتے ہیں اور اگر درمیان میں سالیسٹر کیس کی پیروی نہ بھی کر سکے تو گھر خریدنے والوں کی فیس کی انشورنس ہوتی ہے۔ اس طرح اگر طلبہ کی انشورنس بھی کر دی جاتی تووہ رقم کے سبب اپنی تعلیم کا سلسلہ ادھورا نہ چھوڑتے۔
تازہ ترین