• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت نامہ ،2نومبر میں 6دن باقی ،سیاسی تلخی میں ہر لمحے اضافہ

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) دونومبر ہونےمیں کچھ دن باقی رہ گئے ہیں ا ور سیاسی تلخی میں ہرگزرتے لمحے اضافہ ہورہاہے تحریک انصاف کے سربراہ بدستور اکتوبر 2011ء کے اپنے اولین جلسے کے خمار سے نکلنے کے آمادہ نہیں ہیں اپنے اس جلسے کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے لئے اپنے دل میں وزارت عظمیٰ بسالی تھی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل ان کے رفقا انہیں باور کراتے رہے کہ وہ سیدھا ایوان وزیراعظم جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپریل 2013ء میں وہ اپنے بچوں اور اپنی ساس کو لندن میں ملے تو انہیں کہہ آئے تھے کہ اب ان سے ملاقات اسلام آباد کے ایوان وزیراعظم میں ہوگی یہ اسی کا شاخسانہ ہےکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انتخابات کو درست قرار دیئے جانے اور ان کے دھاندلی کے الزام کو مسترد کئے جانے کے باوجود وہ اپنا الزام دھرانے سے باز نہیں آئے۔ وہ الیکشن کمیشن، عدلیہ، انتخابی ٹریبونل، حکومتی اداروں، موجودہ حکومتی نظام، وزیراعظم الغرض کسی شے کو تسلیم نہیں کرتے وہ صرف مانتے ہیں تو کے پی حکومت کو جہاں ان کی اپنی حکومت ہے ۔ انہوں نے اگست 2014ء میں مارچ شروع کیا اور مطالبہ تھا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں اب پھر وہ اسلام آباد پر حملہ آور ہورہے ہیں اور مطالبہ بدستور وہی ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں اپنے پہلے دھرنے میں انہوں نے ایک طرف ملک کی جگ ہنسائی کرائی اور قوم کے چار بیش قیمتی مہینے ضائع کئے اور آخر کار نیل و مرام، صرف گھر کو لوٹ گئے بلکہ اس قومی اسمبلی کی رکنیت کی بحالی کے لئے بھیک مانگی جس سے وہ مستعفی ہوگئے تھے اب پھر ایکشن ری پلے ہوگا انہیں یقین ہے کہ پچھلی مرتبہ ایمپائر کی انگلی نہیں اٹھی تھی اس مرتبہ لازماً اٹھے گی گزشتہ دھرنے میں بھی ان کا یقین کہیں زیادہ پختہ تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائیں گےاب تازہ خبر یہ ہے کہ خان کو اندیشہ ہےکہ اس مرتبہ پھر ان سے ہاتھ نہ ہوجائے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کے پی میں اپنے ارکان اسمبلی سے استعفے حاصل کرلئے ہیں یہ سراسر احمقانہ حرکت ہے تحریک انصاف صوبے کی حکمرا ن ہے اگر اس نے ضمنی انتخاب کے ذریعے آئینی بحران پیدا کرنا ہے تو وہ اپنے وزیراعلیٰ کے ذریعے صوبائی اسمبلی تحلیل کراسکتے ہیں تاکہ پورے صوبے میں انتخابات کرانا پڑیں اس صورتحال نے کے پی میں حزب اختلاف کو چوکس کردیا ہے اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ کے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار کو غیر موثر بنانے کے لئے صوبائی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔ وزیراعلیٰ کے خلاف اگر عدم اعتماد کی تحریک دائر ہوجائے تو اس کا صوبائی اسمبلی کو توڑ دینے کا اختیار ساقط ہوجاتا ہے تاآنکہ عدم اعتماد کی تحریک کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے۔ اسی دوران کے پی میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی حلیف جماعت اسلامی بھی اپنی حکومت سے نالاں ہے آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی جو کے پی میں حکومت کی اتحادی ہے ایک سال قبل ہی حکومت سے الگ ہو کر دوبارہ اس سے ملی ہے یہ دونوں بڑے اتحاد تحریک انصاف سے الگ ہوجانے کے اشارے دے رہے ہیں۔ کے پی اسمبلی کے ارکان سے استعفے جمع کرنے کا قدم ثابت کرتا ہے کہ تحریک انصاف کو وفاقی دارالحکومت میں خاطر خواہ ہجوم کرنے میں کامیابی کا یقین نہیں ر ہا۔ خان کو اندیشہ یہ لاحق ہوگیاہےکہ جس ہاتھ کی انگلی نے ایمپائر کی انگلی بننا تھی کہیں وہ فریق ثانی سے ہاتھ نہ ملا لے اور انہیں کانوں کان خبر ہی نہ ہوسکے۔ وہ جن یقین دھانیوں کے بل پر اس حد تک آگے نکل آئے ہیں وہ شاید برقرار نہ رہ سکیں۔انہوں نے گزشتہ دو دنوں میں اپنے مخالفین کے بارے میں جس قدر غیر معیاری اور توہین آمیز زبان استعمال کی ہے اس نے ان کے لاتعداد پرستاروں کو مایوس کیاہے اس کھیل کی تیسری فریق پیپلزپارٹی بھی کچھ حاصل کرکے مرنا چاہتی ہے اسے خان نے نشانے پر لے رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی میں تقسیم واضح ہے اس کے سندھ حکومت سے وابستہ ارکان کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں فریق نہ بناجائے کیونکہ جو قوتیں وفاقی حکومت کو مسمار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی سندھ حکومت کو زمین بوس کرنا ان کے لئے محض ایک ٹھوکر کا کام ہوگا ان حالات میں ان کا اچھا بھلا روزگار ہی نہ صرف ٹھپ ہوگا بلکہ نئی مشکلات بھی انہیں دامن گیر ہوجائیں گی۔
تازہ ترین