• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر پیر کے روز ہونے والے دہشت گردحملے کے بارے میں منگل کو وزیر اعظم کے زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں اہم اطلاعات سامنے آئی ہیں جن سے اس خوں ریز کارروائی کے ذمہ داروں کے بے نقاب کیے اور قانون کی گرفت میں لائے جانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ آئی ایس آئی کے کمانڈر بریگیڈیئر خالد فرید نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پولیس ٹریننگ کالج کے ہاسٹل پر حملے کا منصوبہ نئی دہلی میں تیارکیا گیا اور افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے نیٹ ورک کے سپرد کیا گیا۔جس کے بعد اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی کو دی گئی اور اسی تنظیم سے وابستہ دہشت گردوں نے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آئی ایس آئی کے مقامی کمانڈر نے مزید بتایا کہ اس حملے کی کڑی افغان این ڈی ایس سے بھی ملتی ہے جو اسپن بولدک میں دہشت گردی کا تربیتی کیمپ چلارہی ہے۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پولیس ٹریننگ کالج کے موقع پر موجود کیڈٹوں یعنی جائے واردات کے چشم دید گواہوں نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں انکشاف کیاہے کہ حملہ آوروں نے جو فارسی زبان میں بات کررہے تھے ، کلاشنکوفوں سے بے تحاشا گولیاں برسائیں۔حمزہ نامی ایک زیر تربیت جوان نے دہشت گرد حملے کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات بتانے کے علاوہ یہ شکوہ بھی کیا کہ ہمارے پاس اسلحہ ہوتا تو ہم بھرپور مقابلہ کرتے۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ کمرے میں بند ہوکر جان بچانے والے اس کیڈٹ کا کہنا تھا کہ حملے میں دوسرے کمروں کے درجنوں ساتھیوں کے دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بن جانے کے بعد ایف سی اور آرمی والے پہنچے تو ہماری ہمت بندھی۔حمزہ نے یہ بھی کہا کہ ہماری ٹریننگ ختم ہوئے آٹھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں یہاں واپس کیوں بلایا گیا ہے۔معاملے کے یہ تمام پہلو یقیناً قابل غور اور جواب طلب ہیں اور قوم کو ان کا جواب ملنا چاہیے۔وزیر اعظم کے زیر صدارت کوئٹہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک بار پھر کالعدم تنظیموں کے خلاف مؤثر اقدامات کو یقینی بنانے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق اگست میں وکلاء کی ایک بڑی تعدادکے خود کش حملے کا نشانہ بنائے جانے سمیت سال رواں میں بلوچستان میں یہ دہشت گردی کا چھٹا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک ختم کرنے اور اہم اہداف کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ضروری ہے۔ یہ امر یقینا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردوں کے شہر میں داخل ہوجانے کی اطلاعات مل جانے کے باوجود پولیس ٹریننگ کالج جیسے حساس مقام کی حفاظت کا کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا گیا جبکہ عام حالات میں بھی ایسے اداروں کی حفاظت کا مکمل انتظام ضروری سمجھا جاتا ہے ۔اگر زیرتربیت کیڈٹوں کو ہتھیار نہیں دیے جاسکتے تھے تو کم از کم مسلح محافظوں کے ذریعے کالج کی حفاظت کا معقول بندوبست تو لازمی تھا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ متعلقہ حکام سے اس معاملے میں باز پرس کرکے غفلت کے ذمہ داروں کے خلاف قرار واقعی کارروائی کی جائے۔ برسوں سے ہر بڑی واردات کے بعد کالعدم تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی ہدایات جاری ہوتی ہیں لیکن شاید جس یکسوئی اور سنجیدگی سے یہ کام کیا جانا چاہیے اب تک اس طرح اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ لہٰذا کم از کم اب اس کوتاہی کے ازالے کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔ نیز اس تازہ دہشت گردی میں نئی دہلی اور کابل کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے کو پوری قوت سے اٹھا یا جانا بھی ضروری ہے تاکہ ہمارے پڑوسی ملکوں کی زمین کا ہمارے خلاف استعمال ہونے کا سلسلہ بند ہو۔ کوئٹہ کے تازہ سانحہ پر جس طرح تمام عالمی قوتوں سمیت درجنوں ممالک کی حکومتوں نے پاکستان سے اظہار یکجہتی کیا ہے،اس کا تقاضا ہے کہ یہ ممالک اس مسئلے کے حل میں اپنا اثر ورسوخ بھی استعمال کریں جس کے لیے حکومت پاکستان کو بلاتاخیر سفارتی سطح پر مؤثر مہم شروع کرنی چاہئے۔

.
تازہ ترین