• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس ملک میں جوان لاشیں اٹھانا آسان اور سوال اٹھانا مشکل ہوجائے وہاں لو گ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی ڈرنے لگتے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں کو کفر کے فتوئوں اور غداری کے ا لزامات سے خاموش کرنے کی کوشش دشمنوں کی خفیہ مدد کے مترادف ہوتی ہے لیکن ایسے مشکل وقت میں بھی سوال اٹھاتے رہنا خوف خدا اور انسانیت سے محبت کا ثبوت بن جاتا ہے۔ پولیس ٹریننگ کوئٹہ پر تین دہشت گردوں کے حملے میں 61نوجوان کیڈٹس کی شہادت کے بعد کچھ سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک دفعہ پھر سوالات اٹھانے والوں کو دشمنوں کا ایجنٹ کہا جارہا ہے۔ بلوچستان کے ایک معروف وکیل نے دکھ بھرے لہجے اور پرنم آنکھوں سے مجھے کہا کہ کوئٹہ کے مضافات میں بنائے گئے پولیس ٹریننگ کالج پر پرویز مشرف کے دور میں بھی حملہ ہوا تھا لیکن پھر بھی اس کی سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ کئے گئے۔2008ء میں اسلام آباد کی پولیس لائنز، 2009ء میں پولیس ٹریننگ اکیڈمی مناواں اور2014ء میں پولیس ٹریننگ کالج ہنگو پر حملے کے بعد بلوچستان کے واحد پولیس ٹریننگ کالج کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی لیکن کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا؟ کوئٹہ میں طاقتور اداروں کے دفاتر اور رہائشی علاقوں کو اتنا محفوظ بنادیا گیا کہ شہر کے اندر کئی شہر بن گئے جن میں عام شہری داخل نہیں ہوسکتے لیکن پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کو صرف ایک بندوق بردار گارڈ کے سہارے کیوں چھوڑ دیا گیا؟کیا اس لئے کہ بلوچستان پولیس ایک کمزور ادارہ ہے؟ 6ستمبر 2016ءکو آئی جی نے وزیر اعلیٰ کو واضح الفاظ میں یاد دلایا کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے ارد گرد چار دیواری تعمیر کرنا بہت ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ نے منظوری تو دیدی لیکن دو ماہ میں کوئی کام شروع نہ ہوا حالانکہ دیوار تعمیر کرنا چند دنوں کا کام ہے۔ کیا اس پورے واقعہ کی ذمہ داری صرف پولیس افسران پر ڈال دینا انصاف ہے؟ اس پولیس ٹریننگ کالج کی طرف جانے والے راستوں پر کس کے ناکے ہیں؟ دہشت گردوں نے بھاری اسلحے سمیت یہ ناکے کیسے عبور کئے؟ یہ تمام سوالات اٹھانا دشمن کی مدد کرنا ہے یا دشمن کے طریقہ کار کو ناکام بنانے کی کوشش ہے؟ پاکستان میں 26خفیہ ادارے ہیں۔ ان اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے بہترین خفیہ ادارے ہیں۔ کیا کسی ایک ادارے کو بھی خیال نہیں آیا کہ دہشت گرد لاہور اور اسلام آباد میں پولیس کی عمارتوں پر حملے کرسکتے ہیں تو کوئٹہ میں بھی کریں گے؟ حیرت کی بات ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک فلم بنائی گئی جس کا نام’’وار‘‘ رکھا گیا۔ اس فلم کی کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے نے اسلام آباد میں پولیس اکیڈمی پر حملہ کیا تاکہ سیکورٹی اداروں کو افراتفری کا شکار کیا جائے اور پھر جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد پر حملہ کردیا جائے۔فلم کا ہیرو شان کنونشن سینٹر پر حملے کو ناکام بنادیتا ہے۔ جس جس نے یہ فلم دیکھی ہے وہ سوچ رہا ہوگا کہ ہم پولیس اکیڈمی پر حملے کو فلم کا موضوع بنارہے ہیں لیکن پولیس کے تربیتی مراکز کی حفاظت سے غافل کیوں ہیں؟
کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ2009ءمیں جی ایچ کیو راولپنڈی میںدس حملہ آو ر گھس گئے، 2011ءمیں مہران بیس کراچی میں 15حملہ آورگھس گئے، 2012ءمیں کامرہ ائر بیس میں9حملہ آوروں نے تباہی مچادی اور 2014 ء میں بھی دس حملہ آورکراچی ائرپورٹ میں گھس گئے جہاں اچھے خاصے حفاظتی انتظا مات تھے پھر آپ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کی کچی دیوار پر شور کیوں مچارہے ہیں؟ عرض یہ ہے کہ کوئٹہ کے واقعہ میں صرف تین حملہ آوروں نے60نہتے کیڈٹس کو گولیوں کا نشانہ بنایا، اگر حفاظتی انتظامات بہتر ہوتے تو ا تنا زیادہ جانی نقصان نہ ہوتا۔ میں غلام حیدر نامی پولیس گارڈ کی جرأت کو سلام کرتا ہوں جس نے حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی لیکن جب اس پر تین اطراف سے حملہ ہوا تو وہ شہید ہوگیا۔ یہاں مناسب حفاظتی انتظامات ہوتے تو ایف سی اور فوج کو آپریشن نہ کرنا پڑتا اور فوج کے دو بہادر جوان بھی شہید نہ ہوتے، کاش کے جب2013ءمیں علمدار روڈ کوئٹہ کے حملے میں 105پاکستانی شہید اور169زخمی ہوئے تو کوئی کسی سے پوچھتا کہ اس چھوٹے سے شہر میں خود کش حملہ آوردرجنوں چیک پوسٹوں سے کیسے نکل جاتے ہیں؟ ستم تو یہ تھا کہ2013ءمیں پولیس لائنز کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پر حملہ ہوگیا جس میں39نمازی شہید ہوگئے اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ پولیس لائنز میں خود کش حملہ آور کیسے گھس گیا؟ سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی اور زیارت ریذیڈینسی پر حملے کے بعد بھی غفلت کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔8اگست 2016ءکو ایک خود کش حملے میں بلوچستان کے56وکلاء سمیت 70افراد شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد ضروری تھا کہ صرف مذمت اور ہمدردی نہ کی جائے بلکہ کامیابیوں کے دعوئوں کے پیچھے اپنی غفلتیں چھپانے والے کچھ سوالوں کا جواب دے دیں لیکن سوال کرنے والے ایک دفعہ پھر دشمن کے ایجنٹ قرار پائے ا ور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اپنوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا گیا لیکن دشمن خاموش نہیں بیٹھا اور اس نے ایک اور حملہ کرا کے اہل اختیار کی غفلتوں اور نااہلیوں کا پردہ چاک کردیا۔ کامن سینس تو یہی کہتاہے کہ دشمن نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کا بدلہ لینے کے لئے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کرادیا لیکن ہم ان حملوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ آخر کسی کو تو جواب دینا ہوگا۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام اور سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن ان قربانیوں میں مسلسل اضافہ قابل فخر نہیں۔ عوام اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل مرواتے رہنا کہاں کی بہادری ہے؟ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ جب ہم یہ دعویٰ سنتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو ایک لمحے کے لئے ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے پتہ چلتا ہے کہ جن کی کمر توڑی جاچکی ہے وہ دیواریں پھاند کر کسی سکول، یونیورسٹی یا پولیس ٹریننگ کالج میں گھس کر موت کا کھیل شروع کرچکے ہیں تو پھر کس پر یقین کریں؟ کیا ٹوٹی کمر61پولیس کیڈٹس کو موت کی نیند سلاسکتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان ٹوٹی کمر والوں کو پاکستان کے اندر پناہ گاہیں کون فراہم کرتا ہے؟ یہ گھر کے بھیدی کب گرفت میں آئیں گے؟ میں جانتا ہوں میرے سوالات 61جوان لاشوں سے زیادہ بھاری ہیں لیکن مجھے اس مرد جری کا انتظار ہے جو مجھے خاموش کرانے کی بجائے ان سوالات کا جواب دے۔


.
تازہ ترین