• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ انیس سو اسی کے آخر اور انیس سو نوے کی شروعات کا زمانہ تھا جب کراچی اور حیدرآباد میں لسانی فسادات، اردو- پٹھان پنجابی اور پھر سندھی اردو لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
تب ایک لمبا تڑنگا جینز میں ملبوس موٹر سائیکل پر یہ نوجوان فسادات زدہ علاقوں میں فسادات کے شکار لوگوں اور فسادیوں کے بیچ اپنے دو چند اس جیسے ہی سر پھرے دوستوں کے ہمراہ آ پہنچتا، کبھی راہگیر نہتے فساد کے مارے ہوئے لوگوں کو فسادیوں سے بچاتا اور کبھی زخمی، لٹے پٹے شخص کی مدد کرتا۔ کبھی تیزی سے دلوں اور دماغوں میں زباں اور نسل کی بنیاد پر بنتی ان دیکھی اور علاقوں میں دیکھی تقسیم کے حامی لوگوں سے ایسی تقسیم در تقسیم کیخلاف بحث کرتا، لیکچر دیتا، کبھی نوجوانوں کی ٹولیاں لیکر کرفیو زدہ علاقوں میں امن کے سفید پرچم لیکر نکلتا۔ کبھی پریس کلب حیدرآباد کے باہر ان فسادوں کے خلاف اپنے ساتھی جمع کر کے بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتا۔
یہ اس وقت کا نوجوان مومن خان تھا۔ مومن خان اپنے دور کا معروف طالب علم رہنما اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کا سابق صدر۔ مومن خان شہر حیدرآباد سندھ کے ان تھوڑے لوگوں میں سے تھا جس کا شہر میں اٹھتی ہوئی لسانی نفرت اور تقسیم کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی تھی۔ جس کا حس مزاح ایسے خون آشام حالات میں بھی ایسا ہی تھا کہ مذاق اڑاتا کہ لیاقت علی خان جو کہ اردو بولنے والا تھا اس کے نام پر بنے ہوئے اسپتال میں اب فسادات کے وقت صرف سندھی جاتے ہیں اور شاہ لطیف کے نام پر بھٹائی اسپتال لطیف آباد میں ‍اردو بولنے والے زخمی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسپتال، عبادتگاہیں، مساجد، امام بارگاہیں یہاں تک کہ قبرستان بھی تقسیم ہوچکے تھے۔ کئی جانے پہچانے لوگ دیکھے بھالے لوگ بھی۔ یہاں تک کہ لسانی بنیادوں پر طلاقیں بھی ہوئیں منگنیاں بھی ٹوٹیں۔ لیکن مومن جیسے لوگ تقسیم و تبدیل نہ ہوئے۔
سندھی اردو فسادات کے دنوں اور کرفیو کی راتوں میں بھی مومن خان تقسیم شدہ فسادات زدہ آبادیوں میں بغیر جھجک کے آ جا سکتا تھا۔ اسکی نہ فقط شین قاف درست تھی پر سندھی کے "ڈال ڈیڈر" جیسے حروف کا تلفظ بھی۔
وہ اور اس کا کتا۔ وہ اور اس کی موٹر سائیکل اور وہی پرانی جینز۔ وہ کبھی فیض احمد فیض کی نظم "کتے" پر اسٹریٹ تھیٹر کرنے کا سوچتا تو کبھی سندھی شاعر شیخ ایاز کے "بھگت سنگھ کو پھانسی " پر اوپیرا۔ یہ محمد میاں جیسے صحافی کا بھی دوست تھا اور جی این مغل کا بھی تو سید اختر رضوی سے بھی اسکی یاد اللہ تو ڈاکٹر حسن ظفر عارف سے سیاسی شاگردی کا رشتہ۔ کبھی وہ لیاقت کالونی کے خاکروبوں کے مندر میں ملتا تو کبھی مجلس میں۔ اسوقت بھی اس نے شہر میں فسادات کو روکا تھا جب محرم کے ایک جلوس پر مبینہ طورپر ایک لسانی تنظیم کے دفتر کی چھت سے فائرنگ کی گئی تھی۔ وہ سندھی اور اردو لسانی فسادات کے پہلے دن معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کے ساتھ سندھی ادیبوں اور ادب دوستوں کی طرف سے منائی جانیوالی ادبی شام کی تقریب کے منتظمین میں سے تھا۔۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکے بھی اس سے محبت کرتے تو اے پی ایم ایس او کے بھی۔ شہر میں جب لسانی فسادات کی پہلی آگ پٹھان اور اردو بولنے والوں کے درمیاں لگی تو وہ شہر میں ایدھی مرکز کھولنے والوں کی مدد میں پیش پیش تھا۔میں اسکے اوصاف کی وجہ سے اسے مومن کافر کہتا۔
سوائے میرے، بہت سارے اسکے دوستوں اور جاننے والوں کو حیرت ہوئی جب مومن خان نے ایم کیو ایم یا متحدہ قومی موومنٹ میں شرکت کا اعلان کیا۔ وہ سوچتے اس نے یہ اعلان اب کیوں کیا جبکہ اسکے قریبی دوست جانتے ہیں کہ پیشکش تو اسے گزشتہ تین دہائیوں سے تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش مومن خان یہ اعلان بیس پچیس سال قبل کرتا یا ایسے مومن جیسے لوگ کچھ اور اس پارٹی میں ہوتے تو نہ اس پارٹی کی درگت ایسی بنتی اور نہ ہی یہ پارٹی کراچی سمیت سندھ کی ایسی درگت بناتی۔ مومن خان اور ڈاکٹر حسن ظفر عارف جیسے لوگ۔ لیکن اب ان لوگوں کو محض انکی پارٹی اور پارٹی کے قائد سے وفاداری کی بنیاد پر پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ کس طرح کراچی پریس کلب کے باہر ملک کے ایک انتہائی قابل عزت پروفیسر، فلسفہ و نظریہ دان ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو گرفتار کر کے "نامعلوم مقام" لے جایا گیا۔ مومن خان کے متعلق متضاد اطلاعات ہیں۔ کئی دنوں سے اسکا اپنے گھر والوں سے (گھر والوں میں فقط اسکے عزیز ترین اسکا جواں سال بیٹا اور بیٹی ہیں وہ اکیلا انکی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ اسکی عمر اب تریسٹھ برس ہے اور وہ ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی ہے) رابطہ نہیں اور غالباََ اسکو ریاستی اداروں نے غائب کیا ہوا ہے۔ دوسری اطلاعات یہ بھی ہیں بغاوت کے مقدمے میں ضمانت کے بعد اس پر اب مبینہ طور پر ہتھیاروں اور بم رکھنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ مومن خان نے اسوقت بھی تخریب و تشدد کی سیاست نہیں کی جب اسکے شہر کو آگ لگی ہوئی تھی جس میں لوگ پاگل پن کا شکار ہوکر کود رہے تھے – یہ اس شخص پر الزام ایسا ہے جیسے بھٹو دور میں استاد دامن کے حجرے سے بم برآمد ہونے کا مقدمہ قائم کیا گيا تھا۔ یا جام صادق علی کے زمانے میں سید قائم علی شاہ پر ایم کیو ایم کے استقبالی کیمپوں پر فائرنگ کرنے کا۔اس سے حکومت اور ریاست کو جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ملنے والا۔ مومن اور حسن ظفر عارف کا جرم محض یہ ہے کہ شاید انہوں نے غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط وقت پر غلط فیصلہ! انکا جرم یہ ہے کہ وہ مجازی، فاروقی، حقیقی، یا پاک سرزمین کے بجائے ایم کیو ایم الطاف میں شامل ہوئے ہیں۔ مومن خان جس نے بھٹو، اور ضیا حکومتوں کے خلاف بھی جدوجہد کی ہے اور ان حکومتوں کے ہاتھوں اہل خانہ سمیت زیر عتاب رہے ہیں۔ جنکے والد ڈاکٹر ادریس نے نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی پی ڈی پی کے پلیٹ فارم سے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی تھی۔
ڈاکٹر حسن ظفر عارف جو فلسفے کے پروفیسر، سیاسی نظریہ دان، اور ملک کے انتہائی معزز تعلیم دان ہیں۔ جنہوں نے ضیا کی فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کی، ضیا آمریت کے زیر عتاب رہے، قید و بند اور بیروزگاری سے گزرے۔ سابق ضمیر کے قیدی- جنہیں بینظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کی نظریاتی سیاسی تعلیم کی ذمہ داری سونپی تھی۔ جو بعد میں مرتضی بھٹو کی شہید بھٹو پی پی پی میں رہے، انکی اور مومن خان کی گرفتاری نواز شریف چاہے مراد علی شاہ کی حکومتوں کے منہ پر ایک تاریخی کلنک کا ٹیکا رہے گی۔ اور ایک مضحکہ خیز المیہ بھی۔بقول شاعر حبیب جالب
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا


.
تازہ ترین