• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پتہ نہیں کیوں ایک کے بعد ایک جان لیوا خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ دو دن پہلے اردو کی سینئر افسانہ نگار خالدہ حسین کا بیٹا جو کہ 50سال کا تھا، خود بھی ڈاکٹر تھا وہ ہارٹ فیل ہونے سے انتقال کرگیا۔ مجھے فوراً فہمیدہ ریاض کے بیٹے کی ہولناک موت اور پروین طاہر کے جواں سال بیٹے کے ڈوب کے مرجانے کے دلسوز واقعات بھی ساتھ ساتھ یاد آگئے۔ اب ہم لوگ کہ خود جانے کی منزل میں ہیں، اپنے بچوں کا سانحہ برداشت نہیں کرسکتے ۔ اذیتیں اور وہ بھی اس عمر میں سن کر برداشت نہیں ہوتیں ۔ اس طرح اذیت ناک خبر شائیلا بلوچ کی تھی۔ جو فٹ بال کی کمال کھلاڑی تھی، پتہ نہیں کیسے گاڑی چلارہی تھی کہ گاڑی کھمبے سے ٹکرائی اور وہ بھی دنیا چھوڑ گئی۔
اتنی ہی اذیت ناک خبر لندن سے آئی کہ برطانوی پولیس نے 5کروڑ پائونڈ الطاف حسین کے گھر سے اپنے ہاتھوں اٹھانے کے باوجود معلوم نہیں کس بڑی طاقت کے کہنے پر معاف کردیا۔ یہیں بلوچستان کے سیکرٹریوں کے گھروں اور چھتوں میں چھپے ہوئے اٹیچیوں بھرے پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کو تو ہم نے دیکھا، اس کے بعد معلوم نہیں وہ سرمایہ اور اس کو غائب کرنے والے کہاں مفرور ہوئے۔ حکومت برطانیہ وہ 5کروڑ پائونڈ، پاکستان ہی کو دیدے تو لوگوں کو صاف پانی ہی میسر آنے لگے۔ اب چوہدری نثار ایک گھنٹے کی پریس کانفرنس میں کیا کہیں گے۔ ان کو تو سرل المیڈا کی خبر کا جنون ہوگیا ہے۔ اچھا بھلا جانتے ہیں کہ کوئی اخبار نویس، اپنی خبر کی سورس نہیں بتاتا ۔ بالکل اس ہی طرح برطانوی پولیس اور شاید بلوچستان کی پولیس اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لوگ مثالیں دیا کرتے تھے انگریز پولیس کی۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ الطاف حسین کی جنوبی افریقہ اور دیگرممالک میں بھی بے شمار جائیدادیں ہیں۔ مگر ان پر کرم خدا کا ہوا، سارے عیب دھل گئے۔ وہ جو اللہ میاں کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہی سزا ملے گی۔ ہم نے تو سوائے ضیاالحق کے، اور کسی آمر کو سزا ملتے نہیں دیکھی۔ وہ جس کو سپریم کورٹ نے ملک سے باہر نہ جانے کا حکم دیا تھا۔ اس کو حکومت نے علاج کے بہانے، باہر بھیج دیا، اب وہ وہاں ڈانس کررہا ہے اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ ملک میں واپس آئے اور طرح طرح کی سزا بھگتے۔
یہ بالکل اس طرح ہے کہ خبر آئی کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو کہا گیا کہ آپ سندھ کے گورنر ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ڈھائی سال بے سبب اور بغیر کوئی الزام ثابت ہوئے اذیتیں دیں۔ اب مجھے سیاست نہیں کرنی، مجھے ڈاکٹری ہی کرنی ہے۔ مجھے آزاد تو کرو۔ اس طرح ایک غریب آدمی کو پندرہ برس جیل میں رکھنے کے بعد، اس بے قصوری کی وجہ سے آزاد کردیا گیا۔ مگر آسیہ بی بی کا مقدمہ سننے کا سوال سپریم کورٹ کے سامنے آیا۔ جج صاحب نے مقدمہ ملتوی کردیا۔ دنیا میں انصاف دلانے والی ساری قوتیں خاموش ہیں۔
آئیے اب ادبی موضوعات کا جائزہ بھی لیں۔ اس مرتبہ کانوبیل انعام باب ڈیلن کو اس کی انقلابی شاعری کو جگہ جگہ گانے اور عوام میں مقبول ہونے کے باعث ملا ہے۔ نہ ملا حبیب جالب کو اپنی مقبولیت اور شاعری کے باعث، آج سے 20برس پہلے مل جانا چاہئے تھا۔ نورجہاں اور لتا منگیشکر کو بے پناہ مقبولیت کے باعث مل جانا چاہئے تھا۔ پچھلے برس بھی ایک خاتون کو نوبیل انعام دیا گیا جس نے اپنے مضامین کے تراشے اکٹھے کرکے، دو کتابیں بنالی تھیں۔ تجزیہ کیا جائے تو افریقہ اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں نہ صرف شعری مجموعوں کی شکل میں بلکہ افسانوں اور ناولوں کے انداز میں قابل تعریف تحریریں منعکس کرتی ہوئی کہ لوگوں کو روٹی کی جگہ گولیاں کھانے کو مل رہی ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک کو برباد کردیا جائے۔یہ بحث بھی حقیقی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے اور کیوں نہ ہو۔ اگر شام کی آدھی سے زیادہ آبادی لڑائی کے باعث ہجرت کرچکی ہے، مگر بڑی طاقتیں شام میں بادشاہ کی حکومت کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔ ہمارے ملک میں تو جو آیا، اس نے بادشاہت ہی کی۔ ہر پوسٹ پر اپنے بندے لگائے اور راج کیا۔ ملک کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ یہ آئندہ آنے والا جانے۔
اس وقت جو بے شمار جگہیں گروی رکھی جارہی ہیں، مملکت خداداد کو چلانے کے لئے، وہیں کہا جارہا ہے کہ ڈار صاحب کو بہترین فنانس منسٹر کا درجہ دیا جارہا ہے اور خبر یہ بھی ہے کہ آئی۔ایم۔ایف نے اس اعلان کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ ویسے ہم تو غریب ہونے سے بھی انکاری ہیں۔ اس لئے ہی تو مردم شماری کرانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!


.
تازہ ترین