• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 16دسمبر 2014کی بات ہے۔اس بار اسکول کے معصوم بچے دہشت گردوں کے نشانے پرتھے۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے نے پوری قوم کو جھنجوڑ کررکھ دیا تھا۔جس کے بعد تمام سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔آج دہشت گردی کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن کو تقریبا دو سال گزر چکے ہیں۔مگر دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔دہشت گردوں کا ہر حملہ پہلے سے شدید اور خوفناک ہوتا ہے۔اس بار کوئی اور نہیں بلکہ قانون کے رکھوالے ہی دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر حملے کے تانے بانے سرحد پار ملا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے لوگ مرتے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مررہے ہیں
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش میں مصروف ہیں۔مگر بدقسمتی ہے کہ ہماری سرزمین پر ہمارے لوگوں کو ہی ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔کوئی ہندواوریہودی تو کسی حملے میں اب تک گرفتار یا مارا نہیں گیا۔کشمیر یا بمبئی میں اگر کوئی دہشت گردی کی جاتی ہے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس میں پاکستانی ملوث تھے۔ثبوت مانگے جائیں تو اجمل قصاب کو سامنے لے آتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں اگر کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے تو راہمارے ہی لوگوں کو خریدتی ہے اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
کوئی اور تو نہیں پس خنجر آزمائی۔۔۔
ہمیں قتل ہورہے ہیں ہمیں قتل کررہے ہیں
پاکستان میں جب بھی ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تو کبھی بھی ادارے اور حکومت ایک پیچ پر نہیں تھے۔ویسے تو مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ خان درست فرماتے ہیں کہ حکومت فیصلہ کرنے والی ہوتی ہے اور اداروں کے لئے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ فیصلہ کرنے والے اور جن کے حوالے سے فیصلہ کیا جارہا ہو۔کبھی بھی ایک پیچ پر نہیں ہوتے۔مگر ہماری بدقسمتی تو یہاں تک رہی کہ جو معاملات ہم نے 80یا 90کی دہائی میں طے کرنے تھے۔وہ آج بھی طے نہیں ہوسکے کہ ریاست کا موقف کیا ہے؟آج بھی بعض مذہبی انتہاپسندتنظیموں کے بارے میں ہمارا نرم گوشہ ہے۔اگر زیادہ دور نہ جائیں تو کوئٹہ حملے کو ہی لے لیں۔ہماری ریاست نے ہمیشہ ایتھنک فورسز کے خلاف آپریشن کیا۔بلوچستان لبریشن فرنٹ ہو یا ایم کیو ایم،ریاست ہمیشہ ان سے سختی سے نپٹتی ہوئی نظر آئی۔ریاست کے خلاف جو بھی فورسز کام کریں۔ان کے خلاف قانون کو حرکت میں لانا بھی چاہئے۔مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انتہا پسند فورسز کے خلاف بھی کڑا آپریشن کیا گیا ہو۔آج اگر کوئٹہ دھماکے کے بعد کہا جاتا ہے کہ لشکر جھنگوی،تحریک طالبان پاکستان اور داعش نے مشترکہ طور پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔بھلا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ یہ لشکر کون ہے ؟ یا اس لشکر کی جدید شکل کیا ہے؟ کیا اس کے بانی ابھی تک جھنگ میں مقیم نہیں ہیں اور باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ نہیں لیتے؟ کیااسی لشکر کے ہی لوگ پنجاب سے نکل کر بلوچستان میں منتقل نہیں ہوئے تھے؟ آج ان سوالات کے جواب کاہر پاکستانی متلاشی ہے۔مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جو بھی شخص ان معاملات پر کھل کر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے غدار کہہ دیا جاتا ہے۔خدارا انتہا پسند پاکستان کا چہرہ نہیں ہیں۔آج وقت ہے جب ریاست کو دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔سخت فیصلے لیتے وقت بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔مگر اب ہمیں مزید ان بیساکھیوں کے ساتھ نہیں چلنا ہوگا۔ملک اسحاق کو بھی تو ایک عرصے تک اپنے اوپر بوجھ بنائے رکھا او ر بالآخر اس کا وہی انجام ہوا جو ایک دہشت گرد کا ہوتا ہے۔لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ انجام 20سال پہلے ہو جاتا۔ آج جنہیں ہم اثاثہ کہتے ہیں۔کل ان کا بھی یہی انجام ہوگا مگر تب تک ہم بہت نقصان اٹھاچکے ہونگے۔اگر میری بات سے کسی کو اعتراض ہے یا پھر کوئی تلخ حقائق برداشت نہیں کرنا چاہتا تو بے شک دنیا بھر میں تعینات پاکستانی سفیروں کی خفیہ رپورٹس اٹھا کر پڑھ لیں۔ہمارا کوئی سفارتکار اور غیر ملک جانے والا وفد جہاں بھی جاتا ہے۔اسے انہی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک ممبر قومی اسمبلی نے تو چندروز قبل اپنی آپ بیتی پارلیمنٹ میں آکر سنادی تھی۔آج وقت ہے کہ ہم سب متحد ہوکر ان محرکات کا جائزہ لیں اور ریاست ان تمام عناصر کو خیر باد کہہ کر اپنا اصولی موقف دنیا کے سامنے لے کر آئے۔اب ہمیں اس باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہوگا کہ پنڈی اور اسلام آباد کا الگ الگ موقف ہے۔
کوئٹہ کے دھماکے سے جڑا اہم پہلو ذمہ داری کا بھی ہے۔میڈیا کی اکثریت دھماکے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال رہی ہے۔شاید سیاستدانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا آسان ہوتا ہے۔مگر حقائق یہ ہیں کہ یہ دھماکا پنجاب، سندھ یا خیبر پختونخوا کے کسی حصے میں نہیں ہوا۔بلکہ بلوچستان کے دل کوئٹہ میں ہوا ہے۔ہر شخص جانتا ہے کہ سیاسی حکومت سے زیادہ بلوچستان میں کس کی سنی جاتی ہے۔چیف سیکرٹری اور آئی جی متعلقہ کورکمانڈر کی مشاورت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔اس لئے سارا ملبہ سیاسی حکومت پر ڈالنا مناسب نہیں ہے۔کوئی بھی حکومت کبھی بھی اپنے دارالحکومت میں جان بوجھ کر غفلت نہیں برتتی۔جس باؤنڈری وال کو اونچا کرنے کی بات کی جارہی تھی تو اس کا اعلان ستمبر میں کیا گیا۔یعنی آج سے ٹھیک ایک مہینہ پہلے۔جو لوگ معاملات حکومت کو سمجھتے ہیں۔انہیں معلوم ہوگا کہ وزیراعلیٰ کے اعلان کے فورا بعد دیوار بننا شروع نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے باقاعدہ ٹینڈر اور فنڈز کی منتقلی کی جاتی ہے۔وزیراعلیٰ ہاؤس سے چیئرمین پی این ڈی تک فائل جا نے میں ایک مہینہ معمولی بات ہے۔اس لئے صرف سیاسی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں ہے۔انٹیلی جنس ادارے وزیراعلیٰ کے ماتحت نہیں ہوتے۔واقعہ کی سیاسی حکومت سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔مگر ایک دوسرے کو دوش دینے کے بجائے اب ہمیں ہوش سے کام لینا ہوگا اور دہشت گردی کے اس حملے کو آخری حملہ بنانا ہوگا۔
کب تک اس شاخ گلستان کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پھونٹیں گی تو کل پھونٹیں گی


.
تازہ ترین