• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ایڈمن نے گارڈ سے کہاکہ فوری طور پر ایڈمن آفس آکر اپنا یہی بیان تحریری طور پر دے جو اس نے صبح فون کرکے بتایا تھا کہ رات ایک غیر متعلقہ شخص سٹوڈنٹس کے ہوسٹل میں آکر ٹھہرا اور جب میں نے اسے روکا تو ہوسٹل وارڈن نے کہا کہ یہ میرا مہمان ہے اور میں اس کو ٹھہرا رہا ہوں ، سکیورٹی گارڈ کے مطابق اس نے وارڈن کو کہا کہ سر یہ درست ہے کہ آپ وارڈن ہیں لیکن یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق ہمیں یہ احکامات دیئے گئے ہیں کہ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں صرف وہی اسٹوڈنٹس رہ سکتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ ہوسٹل میں داخلہ لے رکھا اور اس کے علاوہ کوئی مہمان تو درکنار یونیورسٹی کا دوسرا سٹوڈنٹ بھی رہائش اختیار نہیں کرسکتا اور بطور سکیورٹی گارڈ ہمیں یہ احکامات بھی دیئے گئے ہیں کہ کسی بھی آؤٹ سائیڈر کی رہائش کی صورت میں وارڈن کے ساتھ ساتھ سکیورٹی گارڈ بھی ذمہ دار ہوگا، اس لئے میں آپ کے اس مہمان کو ہوسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا، وارڈن نے سکیورٹی گارڈ کو ڈانٹ کر خاموش کرادیا اور مہمان کو ہوسٹل میں ٹھہرا دیا ، سکیورٹی گارڈ نے صبح ڈائریکٹر ایڈمن کے آفس فون کرکے رات کے واقعہ کی اطلاع دے دی، لیکن اسے ذاتی طور پر حاضر ہوکر تحریری طور پر رپورٹ کرنے کو کہا گیا، جب سکیورٹی گارڈ نے ایڈمن آفس آکر سب کچھ ضبط تحریر لاتے ہوئے بتادیا تو ڈائریکٹر ایڈمن نے سکیورٹی گارڈ کو ملازمت سے برخواست کرنے کے احکامات جاری کردیئے ، ایڈمن آفس کا دیگر عملہ اپنے صاحب جو آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں اور نظم و ضبط کے حوالے سے بہت سخت ہیں سے دبے الفاظ میں شکایت کی کہ آپ نے ایک فرض شناس سکیورٹی گارڈ کو ملازمت سے برخواست کردیا جس نے آپ کو سچ بتایا ، ڈائریکٹر ایڈمن نے سخت لہجے میں جواب دیا کہ جب ان کو یہ ہدایت جاری کی ہیں کہ سکیورٹی کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کے حوالے سے ڈیوٹی کے دوران 24گھنٹے میں جب بھی یہ محسوس کریں کہ خلاف ورزی ہورہی ہے تو فوراً آگاہ کریں نہ کہ ساری رات انتظار کرکے دوسرے روز بتائیں، کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور چھوٹی سی غلطی سے بڑی دہشتگردی کا شکار ہوسکتے ہیں اور دہشتگردی کے واقعات بتاتے ہیں کہ بڑے حادثات اس وقت پیش آتے ہیں جب اندر سے انہیں اطلاعات دی گئیں ہوں، ڈائریکٹر ایڈمن کا اگلا قدم وارڈن کو ملازمت سے برخواست کرنے کا تھا کہ وہ ایک غیر متعلقہ شخص کو چاہے وہ ان کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ تھا ،یونیورسٹی لا کر اور ہوسٹل میں ٹھہرانے کی غلطی کرکے قوانین کی سخت خلاف ورزی کی ہے، ڈائریکٹر ایڈمن کو ہمارے کلچر کے مطابق بہت سارے سفارشی فون اور پیغامات موصول ہوئے لیکن انہوںنے اس حوالے سے کسی نرمی کا مظاہرہ کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ڈائریکٹر ایڈمن نے ماضی میں ایک یونیورسٹی میں ہونے والی دہشتگردی کا واقعہ دہراتے ہوئے کہاکہ اس میں بھی دہشتگردی کرنے والے رات یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ہی مہمان بن کر ٹھہرے تھے ، لہٰذا اس خلاف ورزی کی کوئی معافی نہیں ہے ۔
واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوں اور دشمن آپ کی تاک میں ہو تو پھر اس طرح کے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن افسوس ہے کہ یونیورسٹی کا ایک ڈائریکٹر تو یونیورسٹی کی دیواروں کو آٹھ فٹ بلند کر کے اس کے اوپر تاروں کی باڑ اور پھر سکیورٹی کے عملے کی تعیناتی اور ان پرسخت نظر رکھ کر اپنے اسوڈنٹس کی حفاظت کے جتن کرتا ہے لیکن کوئٹہ شہر میں جو زیادہ خطرے سے دو چار ہے وہاں پولیس کے ان نوجوانوں کی حفاظت کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، جنہوںنے دوسروں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے ، کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے لیکن پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت بلوچستان کی حکومت اس غفلت کی ذمہ دار ہے لہٰذا کف افسوس ملنے ، دکھ کا اظہار کرنے یا لواحقین کو دلاسہ دینے سے کام نہیں چلے گا، غفلت کے مرتکب افراد کو کٹہرے میں لایا جائے اور احتساب کا ایک کلچر شروع کیا جائے جو ہمارے ملک میں ناپید ہے اور گندگی کو قالین کے نیچے کرکے ’’ سب اچھا ہے ‘‘ کا راگ الاپا جاتا ہے۔


.
تازہ ترین