• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدمے اور غم میں ڈوبے سانحہ کوئٹہ کی خبر پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کوئٹہ میں یہ سانحہ پہلی بار نہیں ہوا۔ کوئٹہ کی حب الوطنی سے سرشار پتھریلی زمین پر وقفے وقفے سے خون بہہ رہا ہے بلکہ بہایا جا رہا ہے اس کے باوجود ہماری قیادت کی آنکھیں کھل رہی ہیں نہ موثر احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ احتیاطی اور حفاظتی بند باندھنے سے دشمن کی یلغار سے تو نہیں بچاجا سکتا لیکن نقصان کم سے کم ہوتا ہے اور دشمن کے دانت بھی کھٹے ہوتے ہیں۔ کوئٹہ ایک مدت سے مختلف وطن دشمن قوتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے کئی بار ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور ان کا بے دریغ خون بہایا گیا پھر وکلاء پر قیامت ڈھائی گئی اور اب ساٹھ سے زیادہ گھبرو نوجوانوں کو شہید کرکےسینکڑوں خاندانوں کو غم میں ڈبو دیا گیا۔ ان صدمات کی کاری ضرب ہر پاکستانی کے دل پر زخم لگاتی ہے لیکن ان مائوں اور خاندان کے غم کا اندازہ لگانا مشکل ہے جن کے گھروں کے آنگن اجڑ گئے اور مستقبل کے سہانے خواب خاک میں مل گئے ’’جس تن لگے‘‘ وہی جانتا ہے۔ حکمران، سیاسی قائدین اورقومی شخصیات اور ایک دو روز بیانات دیکر قراردادیں پاس کرکے اور زخمیوں کی عیادت کرکے فارغ ہو جائیں گی کہ گویا ہمارا صرف اتنا ہی فرض تھا جو ہم نے ادا کر دیا۔ اب تک کے سانحات پر نگاہ ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری قیادت، انتظامیہ اور متعلقہ ادارے بے حس ہو چکے ہیں جب آسمان گرتا ہے متحرک ہو جاتے ہیں اور چند روز کے بعد بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں پھر انہیں اگلا سانحہ بیدار کرتا ہے لیکن یہ بیداری چند دنوں کے لئے ہوتی ہے۔ یہ صورتحال دشمن قوتوں کو بار بار حملے کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ فریاد کریں تو کہاں، دستک دیں تو کس دروازے پر کہ کوئٹہ میں تھوڑا عرصہ قبل وکلاء کا قتل عام ہونے کے باوجود تھرٹ الرٹ (THREAT-ALERTS) ملنے کے باوجود اوڑی حملے کے بعد مودی کے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اعلانات اور اسٹرٹیجک اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کے باوجود افغان قیادت کی دھمکیوں اور کھلم کھلا الزامات کے باوجود حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن کے امریکی دبائو کے باوجود سی پیک کے حوالے سے دشمنوں کے واضح عزائم کے باوجود براہمداغ بگٹی اور بلوچ لبریشن آرمی کے ہندوستانی سرپرستی میں داعش سے مل کر کارروائیاں کرنے کی اطلاعات کے باوجود بلوچستان حکومت نے نہ اتنے اہم اور بڑے پولیس سینٹر کی پختہ اور اونچی دیوار بنوائی نہ ٹاور بنا کر ان میں شوٹرز بٹھائے اور نہ ہی سینٹرکے لئے ضروری حفاظتی عملہ تعینات کیا۔ ایک تنہا مرد مجاہد ٹاور میں کھڑا کب تک دہشت گردوں کا مقابلہ کرتا، بلاشبہ اس نے جرات اور بہادری کی داستان رقم کی لیکن تربیت یافتہ حملہ آوروں اور ہر قسم کے اسلحے سے لیس دہشت گردوں کو روکنا اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ وہ شمع بجھی تو دہشت گردوں کے لئے میدان صاف تھا اور انہوں نے ہاسٹل میں گھس کر آرام اور سہولت سے نوجوانوں کا خون بہایا۔ آپ ہی بتائیں ہم کس سے فریاد کریں، کس سے توقع رکھیں، کس سے انصاف مانگیں کہ بے حسی، نااہلی اور نالائقی نے ہماری روشن نگری کو اندھیر نگری بنا رکھا ہے۔ پولیس سنٹر کی پانچ فٹ کچی دیوار ٹاور میں موجود صرف ایک گارڈ یا شوٹر، ٹریننگ مکمل کرکے جانے و الوں کو واپس بلا کر ہاسٹل میں ٹھہرانا دشمن کو وار کرنے کی دعوت دینا نہیں تو اور کیا تھا ؟ انہی نوجوانوں نے دہشت گردوں کے خلاف جہاد کرنا تھا، قانون شکن عناصر کی سرکوبی کرنی تھی چنانچہ دشمن نے انہی کو نشانہ بنایا اور پورے ملک میں خوف وہراس پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پڑھے آپ نے اس حوالے سے ہندوستانی اور افغان قیادتوں کے بیانات، یہ بیانات بھی ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے اور ہماری سرزنش کرنے کے لئے تھے۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے بھی اپنا پرانا مطالبہ دہرایا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ افغان وزیر خارجہ کا فرمان تھا کہ جب تک پاکستان میں بیٹھے جہادی اور دہشت گرد افغانستان میں کارروائیاں کرتے رہیں گے، خود پاکستان بھی اس آگ میں جلتا رہے گا۔ ملتا جلتا مفہوم ہندوستانی قیادت کا بھی تھا جس سے تاثر ملا کہ ہندوستان اور افغانستان کے حکمرانوں نے باہم مشورے سے بیانات جاری کئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان پراکسی وار کا نشانہ ہے ؟ کیوں؟ کن کے لئے ؟اس سے سمجھ لیجئے کہ کچھ دن قبل جو خبر ڈان میں فیڈ کروائی گئی تھی اور جس پر عسکری قیادت نے ناراضی کا اظہار کیا تھا اس کے پس پردہ کیا محرکات تھے ؟
قریب قریب دہائی گزر گئی لیکن ہندوستان نے آج تک ممبئی حملے کا پیچھا نہیں چھوڑا وہ اب تک عالمی فورم پر پاکستان کو مطعون اور بدنام کر رہا ہے۔پاکستان میں اس دوران کئی ممبئی جیسے سانحات ہو چکے، سینکڑوں معصوم اسکول طالب علموں، یونیورسٹی طلبا، وکلاء، شہریوں، فوجیوں اور پولیس ملازمین کا خون بہایا جا چکا لیکن اس کے باوجود ہم عالمی رائے عامہ اور اہم ممالک کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ ہندوستان اور افغانستان مل کر پاکستان میں کشت وخون کر رہے ہیں، مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے بعد اب ہندوستان بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کر چکا ہے اور مودی اپنے عزائم کا کھل کر اظہار بھی کر چکا ہے۔ ہندوستان کے منظم اور موثر پروپیگنڈے اور ڈپلومیسی کا ہم توڑ نہیں کر سکے۔ نتیجہ یہ کہ دنیا ہمیں الزام دیتی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر ہماری آواز صدا بہ صحرا کی مانند ہے۔ دنیا کی نظر میں ہم خود اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں یہی بات کچھ عرصہ قبل سابق چار خارجہ سیکرٹریوں نے ایک مشترکہ آرٹیکل میں لکھی تھی کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت کوئٹہ سانحے کے جھٹکے کے بعد اس پہلو پر غور کرے گی ؟ آخر ہم کب تک صدمے سہتے اور بے بسی کے آنسو بہاتے رہیں گے ؟ کیا ہماری طاقتور، مضبوط اور منظم فوج، ہماری عسکری قوت، ہماری ایٹمی قوت، ہماری انتظامیہ، ہماری ایجنسیاں ان خوفناک چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں؟ سیاسی قیادت سے توقع محض فریب نظر ہے۔
ضرب عضب کی کامیابیوں کے بعد کوئٹہ میں وکلاء کے قتل عام نے کومبنگ آپریشن کو جنم دیا اس سے امید کی کرن پھوٹی، امید تھی کہ اس کنگھی نما آپریشن سے ہم کوئٹہ اور سارے ملک میں دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ضرب عضب کے حوالے سے عسکری قیادت کا یہ گلہ بھی اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ فوج تو اپنے اہداف اور مقاصد پورے کر رہی ہے لیکن سیاسی حکومتیں اور سول انتظامیہ ضرب عضب پر پوری طرح عمل نہیں کر رہی،کرپشن اور دہشت گردی کا بھی آپس میں گہرا رشتہ ہے اگر کوئٹہ میں کومبنگ (COMBING)آپریشن ہوا ہوتا اور دہشت گردوں کے سہولت کار موجود نہ ہوتے تو ہم اتنے بڑے سانحے سے بچ سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی و عسکری قیادتوں، اداروں اور محکموں میں مکمل آہنگی نہیں اور یہ وہ نفاق ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ لاہور میں عیسائیوں کی بستی پر حملہ ہوا تو انہیں آسٹریلیا نے پناہ دے دی اب ہزارہ کمیونٹی کو بھی آسٹریلیا نے امیگریشن کی آفر کر دی ہے کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سے پاکستان کا عالمی سطح پر کیا امیج بنے گا اور پاکستان کس قدر غیر محفوظ ملک کہلائے گا۔ خدارا! آنکھیں کھولئےاور اپنی سیاسی و عسکری قیادتوں سے دست بستہ درخواست کیجئے کہ وہ مل کر ان خطرات سے نپٹنے کے لئے فول پروف حکمت عملی بنائیں اور اس پر عملدرآمد یقینی بنائیں یہ پاکستان کے شہیدوں کی بھی دعا ہے اور ہماری فریاد بھی.....!!


.
تازہ ترین