• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں سر سید سترہ اکتوبر کو پیدا ہوئے تھے۔ میں کہتا ہوں سر سید سترہ اکتوبر کو اتارے گئے تھے۔
قدرت کے دستور نرالے ہیں۔ سنا ہے جیسی تاریکی ہو، قدرت اسی مناسبت سے روشنی اتارتی ہے۔ ہم نے دیکھا۔ جہالت کی تاریکی تھی، قدرت نے علم کی روشنی اتاری۔
کس غضب کا اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ راستہ نظر آنا بند ہوگیا تھا، لوگوں نے قدم بڑھانا چھوڑ دیا تھا۔جب کسی نے کوئی صحیح راستہ سجھایا، لوگ طے کر بیٹھے کہ اس میں دھوکا ہے۔ کہیں فلاح کی راہ کھولی گئی، اعلان ہو ا کہ خبر دار۔ یہ سب ہمیں کرسٹان بنانے کی تدبیریں ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا، کاش نہ ہوا ہوتا۔ ہم نہ کرسٹان ہوئے نہ عالم فاضل ہوئے۔ ہماری گاڑی عربی فارسی کے پڑاؤ پر کھڑی رہی اور وہ بھی پنجے گاڑ کے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہمارے ممدوح متقی خاںکے بیٹے سید احمد نے ہوش سنبھالا۔ انہوں نے اپنے اطراف کیسے کیسے منظر دیکھے ہوں گے، تاریخ ہمیں ان سب کی سیر کراتی ہے۔
اس کے لئے ہمیں پیچھے کی طرف دیکھنا ہوگا اور سچ پوچھئے تو پیچھے کی طرف دیکھنے کا ہمارے ہاں چلن ہی نہیں۔ اس سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ آگے کی طرف دیکھنے کا ہمارے ہاں گھر گھر رواج ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کسی طرف بھی نہیں دیکھتے۔زیادہ سے زیادہ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ جو وہ کررہے ہیں، وہی ہم بھی کریں، بلکہ اُس سے بڑھ کر۔
ہم سنہ اٹھارہ سو تین کی طرف لوٹتے ہیں جب انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے دلّی پر قبضہ کیا تھا۔شاید اس بیچ اٹھارہ سو ستاون کے ذکر بھی آجائے جب اہل ہند نے انگریزوں کی حکمرانی کا جوا اتار پھینکنے کی کوشش کی تھی جو بہت منظّم نہ تھی، جس کا کوئی سردار نہ تھا اور جس کی کوئی راہ متعین نہ تھی چنانچہ ذرا لڑکھڑانے کے بعد انگریزوں کی عمل داری بحال ہوئی تو انہوں نے ایسے ایسے حساب بیباق کئے کہ ظلم کی حد ہوگئی اور جبر کی انتہا۔ جس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی لہر بن کر اٹھی اور ہندوستان کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس وقت بر صغیر کے عام لوگ دربار کی زبان یعنی فارسی پڑھا کرتے تھے۔ جگہ جگہ مدرسے تو تھے مگر ان کی تعلیم عربی فارسی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے دلّی میں انگریزوں کے قبضے سے گیارہ سال پہلے مدرسہ غازی الدین قائم ہوا۔ وہاں بھی وہی عربی فارسی پڑھائی جاتی تھی۔
دلّی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد کسی کے دل و دماغ پر یہ خیال کہیں سے اترا کہ تعلیم کے نظام کو وقت کے قدم سے قدم ملا کر چلنا سکھایا جائے چنانچہ بائیس سال بعد دلّی کا یہ تاریخی مدرسہ اورینٹل کالج بنا دیا گیا جو بعد میں دہلی کالج کہلایا اور جس کے احسانات تلے ہم آج تک دبے ہیں اور یہ بوجھ کسی نعمت سے کم نہیں۔اس دوران دیسی زبان میں درسی کتابیں تیار کرنے کا کام جہاد کے انداز میں شروع ہوا۔ بڑے بڑے اساتذہ کو یہ کام سونپا گیا۔ سائنس کے استاد ماسٹر رام چندر نے دقیق علمی کتابوں کو اردو میںڈھال دیا۔
پھر منظر بدلا اور بھیانک شکل اختیار کرگیا۔
سنہ تھا اٹھارہ سو ستاون۔ مئی کی گیارہویں تاریخ تھی۔ پیر کا دن تھا اور صبح کا وقت۔ کالج کھل چکا تھا۔ پڑھائی جاری تھی۔ اتنے میں شور اٹھا کہ سپاہیوں اور سواروں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔سارے انگریز مارے گئے۔ انگریزوں سے متعلق ہر چیز تباہ ہوئی۔ کالج کا کتب خانہ لُٹا۔ بلوائیوں نے انگریزی کتابیں پھاڑ کر فرش پر پھیلائیں اور فارسی اور اردو کی کتابیں گٹھریاں باندھ باندھ کے لے گئے اور کباڑیوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کیں۔ سائنس کے آلات توڑ پھوڑ ڈالے اور لوہا پیتل وغیرہ ساتھ لے گئے۔ اس کے بعد یہ کالج بند پڑا رہا۔ سات سال تک اس کی راہ داریوں میں پھٹی ہوئی کتابوں کے ورق اڑتے رہے اور اتنے عرصے تعلیم کی دنیا میں خاک اڑتی رہی۔
کہنے کو ہندوستان کے سارے ہی عوام نے بغاوت کا علم اٹھایا تھا جس میں ہندو اور مسلم برابر کے شریک تھے لیکن غیر ملکی حاکم نے اسے اسلامی بغاوت کا نام دیا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ ستائیس ہزار مسلمان پھانسی چڑھائے گئے اور سات دن مسلسل قتلِ عام ہوا جس کا کوئی حساب ہی نہیں۔اس کے ساتھ ہی غلامی اپنے ڈنکے بجاتی ہوئی آئی جس کے ساتھ ہی تباہ حالی، بربادی، مفلسی، بھوک پیاس، جہالت اور محرومی کا دور شروع ہوا۔ ایسے دشوار حالات میں جب انگریز کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی، سر سید احمد خاں نے رسالہ’اسبابِ بغاوت ِ ہند‘ لکھا اور ہر طرح کے خوف اور اندیشوں کی پروا کئے بغیر انگریزوں کے قصور کی نشان دہی کردی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سر سید کی جرات، دلیری، صاف گوئی اورایک شدید جذبے کا حیرت انگیز اظہار اور انکشاف ہوا۔
سر سید نے محسوس کیا کہ ایک تو مفلسی، دوسرے علم کی کمی، قوم کی ناؤ ڈوبنے کو ہے اور اس کا حل ایک ہی ہے کہ جہالت کو دور کیا جائے۔نئے ذہنوں کی تربیت کی جائے اور جدید تعلیم عام کی جائے۔اس کے بعد سر سید نے میدانِ عمل میں قدم رکھا۔انہیں اپنے خیالات کو عام کرنا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں باقاعدگی سے لکھنے لگے۔ لوگوں کو نئی زندگی کے مسائل سمجھانے لگے۔ پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ سر سید پر دہریہ ہونے کا الزام لگا۔ ان پر مغرب پرستی اور اسلام دشمنی کے فتوے صادر ہوئے۔ غرض یہ کہ حالات مایوس کن ہوگئے مگر کیسا عزم اور استقلال لئے پیداہوا تھا یہ شخص کہ سر سید کہیں جسے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی فلاح اور بھلائی صرف اسی طرح ممکن ہے کہ لوگوں کے اخلاق سدھارے جائیں اور جدید تعلیم عام کی جائے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا قدم اٹھایا اور مدرستہ العلوم علی گڑھ کی بنیاد رکھی۔ بالآخر یہی دارالعلوم ان کا عظیم الشان کارنامہ قرار پایا۔
سنہ 1875ء ایم اے ا و کالج کی تعلیم شروع ہوئی اور اس طرح تاریکی میں ڈوبی ہوئی قوم کے افق پر پہلی روشن کرن نمودار ہوئی۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ کالج کے قیام کے لئے سر سید نے کیسے کیسے جتن کئے اور کون کون سے دکھ نہیں اٹھائے۔ انہیں کتنی سخت باتیں سننی پڑیں اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر ایک شخص تھا جو پہاڑ جیسے حوصلے اور سمندروں جیسے عزائم کا سہارا لئے چلتا ہی گیا۔ آخر سنہ 1921ء میں کالج کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا اور کاغذوں میں جو نام بھی لکھا ہو، دنیا نے اسے مسلم یونیورسٹی کا نام دیا اور یقین ہے کہ رہتی دنیا تک اس کا یہی نام رہے گا۔
معاشرے کی قدروں کے معاملے میں ان کا رویہ بہت صاف تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم مشرقی قدروں کو ترک کئے بغیر مغرب کی اعلیٰ ذہنی اور علمی سطح کو پہنچیں۔ مسلمان اپنی ذہنی پستی سے نکلیں اور بدلتے ہوئے وقت سے قدم ملا کرچلیں اور اس کے لئے بے مثل درسگاہ کے قیام سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
اس وقت تاریخ نے عجب منظر دیکھا۔ سر سید کے سامنے جتنی بھاری مشکلیں سر اٹھا تیں، ان کے عزم و ارادے اتنے ہی سربلند ہوتے جاتے تھے۔ اس زمانے میں کیسی کیسی جھلسا دینے والی ہوائیں چلیں، مگر یہ پودا کیسی عالی شان نیتوں اور کتنے عظیم ارادوں کے ساتھ لگایا گیا تھا کہ تمام مخالفتوں کے باوجود یہ تناور درخت بن کر رہا اور آج ہم سب جو پڑھے لکھے ہونے کے دعوے دار ہیں، اسی کے سائے تلے جی رہے ہیں۔
انیسویں صدی ختم ہونے میں دو سال باقی تھے، مارچ کی ستائیس تاریخ تھی، سید احمد اس دنیا سے اٹھ گئے۔ یوں اٹھنا تو ہرایک کے مقدر میں ہے مگر جس شان سے سرسید سدھارے وہ شان ہر ایک کے نصیب میں نہیں۔وہ اپنے پیچھے اپنے قدموں کے نشان نہیں، روشن چراغ چھوڑ کر گئے، درخشاں قندیلیں چھوڑ کر گئے، وہ جہالت کے اندھیرے میں علم کا اجالا بن کر آئے تھے، گئے تو وہ علی گڑھ کو نہیں، ہندوستان کو نہیں، ایک عالم کو منور کر گئے۔


.
تازہ ترین